سرور و کیف میں ڈوبا ہو دیدہ دیدۂ دل

سرور و کیف میں ڈوبا ہو دیدہ دیدۂ دل

ثنا و نعت میں رہتا ہو ریشہ ریشۂ دل


انہی کی بات کی خوشبو ہی لفظ لفظ میں ہو

انہی کی یاد سے مہکا ہو گوشہ گوشۂ دل


خیالِ طیبہ میں رہتے ہوں ہم نفس سارے

بسائے رکھتے ہوں ایسے وہ خیمہ خیمۂ دل


ثنا کی لہر زمانے میں اس طرح چھائے

صدا ہو نعت کی ہر سو بہ قریہ قریۂ دل


انہی کے حسن کا چرچہ ہو جابجا پیہم

انہی کے شوق میں چلتا ہو رحلہ رحلۂ دل


صبا مدینے سے کوئی خبر تو لائی ہے

کھلا کھِلا سا جو لگتا ہے غنچہ غنچۂ دل


تمام ہونے کو نوری ہے دھڑکنوں کا سفر

انہی کی یاد میں زندہ ہے لحظہ لحظۂ دل

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

تعلق جوڑ لینا اور پھر محوِ ثنا رہنا

کوئی جبرئیل آکر، کرے چاک میرا سینہ

طیبہ دے شہنشہ دا دربار ہے شہانہ

پاک مُحمّد جگ دا والی

سرورِ دو جہاں کو ہمارا سلام

واہ کیا جود و کرم ہے

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

سراپا عکسِ حق روئے مبیں ہے

ہو کرم سرکارﷺ اب تو ہو گۓ غم بے شمار

بطحا سے آئی، اور صبا لے گئی مجھے