تیغ نکلی نہ تبر نکلا نہ بھالا نکلا

تیغ نکلی نہ تبر نکلا نہ بھالا نکلا

گھر سے سرکار کے اخلاق کا آلہ نکلا


پھیلتا ہی گیا اک ایسا اجالا نکلا

جب حرا سے وہ مِرا رحمتوں والا نکلا


میری بخشش کا یہی ایک حوالہ نکلا

فردِ اعمال سے نعتوں کا رسالہ نکلا


شہرِ طیبہ کے لئے راہ نکلتی ہی نہ تھی

میرے سرکار نے جب رستہ نکالا نکلا


اورپھرہم کوتھکن بھی نہیں محسوس ہوئی

شہرِ طیبہ کا سفر راحتوں والا نکلا


گنبدِ خضرا کو دیکھا ہے بہت جی بھر کے

تب کہیں جا کے مِری آنکھ سے جالا نکلا


یا نبی آپ کے جیسا کہیں دیکھا ہی نہیں

بس یہی بولتا ہر دیکھنے والا نکلا


گمشدہ سوئی ملی تیرہ شبی میں آقا

اک تبسم سے ترے ایسا اجالا نکلا


گنبدِ خضرا کے سائے میں جو کھایا تھا شفیقؔ

وہ نوالا تو بڑا برکتوں والا نکلا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

میں اپنے ہار ہنجواں دے پروتے یا رسول اللہ

وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا

جو بھیک لینے کی عشاق جستجو کرتے

یارسول اللہ تیری شان پر جان بھی قربان ھے

جگت گرُو مہاراج ہمارے ، صلّی اللہ علیہ وسلم

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

کر نظر کرم دی محبوبا اس درد و الم دے مارے تے

حسن خود ہووے دل و جاں سے نثارِ عارض

عنوانِ کتاب آفرینش