اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے
آ گیا جیسے عرشِ عُلٰی سامنے
آپ کا ہے یہ اعزاز یا مُصطفٰے
اپنی آنکھوں سے دیکھا خُدا سامنے
ہے اُنہی کی رضا میں خُدا کی رضا
بس رہے مُصطفٰے کی رضا سامنے
اُس کی کایا پلٹ دی مرے شاہ نے
کوئی دُشمن بھی گر آ گیا سامنے
ڈُوبے کشتی بھلا کیسے گرداب میں
جب ہوا آپ سا ناخُدا سامنے
باغِ جنّت میں جا کر جو سجدہ کیا
بابِ جنّت مرے ، کُھل گیا سامنے
جس کو تکنے کی خواہش رہی عُمر بھر
آ گیا ہے وہ گُنبد ہرا سامنے
سیکھنا ہو جو صدق و صفا دوستو !
بس ہو صدّیقِ اکبر سدا سامنے
عدل و اِنصاف کا درس لینا ہو گر
پھر عَُمر کا رہے راستہ سامنے
ہو تمنا نگاہوں میں شرم و حیا
رکھ لو عُثمان کا تُم حیا سامنے
شہرِ عِلمِ نبی تک پہنچ جاؤ گے
ہو جو بابِ علی مُرتضٰے سامنے
بیٹیوں کو مُبارک ! کہ ہے حشر میں
اُن کی لختِ جگر کی رِدا سامنے
اُلجھے سارے مسائل سُلجھ جائیں گے
گرحَسَن کی ہو فہم و ذکا سامنے
اِبنِ حیدر کا رُتبہ سمجھنا ہے گر
ہر گھڑی بس رہے کربلا سامنے
بے عمل مُنہ دِکھانے کے قابل نہیں
کیسے جائیں گے اُن کے بھلا سامنے
جب جلیل حزیں سانس رکنے لگے
کاش ہو تب رُخِ مُصطفٰے سامنے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت