ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان
اسی کی خدائی اسی کا زمانہ
ترے ظرفَ عالی نے ہی لاج رکھ لی
نہ تھا میرا کوئی جہاں میں ٹھکانہ
عبادت کے قصے ریاضت کی باتیں
بجز پیرِ کامل فسانہ فسانہ
مقدر ہے ان کا سدا ہاتھ ملنا
ٹھکانے پہ آکے جو ہوں بے ٹھکانہ
عقیدت کا دامن نہ ہاتھوں سے چھُوٹے
یہی ہے محبت کا پہلا ترانہ
نگاہِ کرم ہے ظہوریؔ وگرنہ
کہاں میں کہاں یار کا آستانہ
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- نوائے ظہوری