ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان

ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان

اسی کی خدائی اسی کا زمانہ


ترے ظرفَ عالی نے ہی لاج رکھ لی

نہ تھا میرا کوئی جہاں میں ٹھکانہ


عبادت کے قصے ریاضت کی باتیں

بجز پیرِ کامل فسانہ فسانہ


مقدر ہے ان کا سدا ہاتھ ملنا

ٹھکانے پہ آکے جو ہوں بے ٹھکانہ


عقیدت کا دامن نہ ہاتھوں سے چھُوٹے

یہی ہے محبت کا پہلا ترانہ


نگاہِ کرم ہے ظہوریؔ وگرنہ

کہاں میں کہاں یار کا آستانہ

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

سکوں دل کو کسی عالم نہیں ہے

دور ہے اس واسطے مجھ سے بلا و شر کی دھوپ

نعت کہنا شعار ہو جائے

نبی کی یاد سے روشن میرے دل کا نگینہ ہے

یَا اَللہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْم

نبیؐ کی نعت جب بھی گنگنائی

دونوں عَالم میں محمدؐ کا سَہارا مانگو

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں

دل میں ہو میرے جائے محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم

چلو دیار نبیﷺ کی جانب