اُنؐ کی سیرت سراپا اثر ہو گئی

اُنؐ کی سیرت سراپا اثر ہو گئی

زندگی روشنی کا سفر ہو گئی


اِک تبسّم کیا سو اُجالے کھِلے

ظلمتِ شب مٹی اور سحر ہو گئی


جب تصوّر کیا گنبدِ سبز کا

دل معطر ہُوا آنکھ تر ہو گئی


اُن کی یادوں کا جو استعارہ بنی

وہ گھڑی عمر کی معتبر ہو گئی


ناتوانوں میں تاب و تواں آگیا

رہبری آپؐ کی چارہ گر ہو گئی


بے نشانوں کو اپنا نشاں مل گیا

فکرِ غارِ حرا معتبر ہو گئی


اُنؐ کا دامانِ رحمت ہی کام آگیا

جب کبھی زندگی پُرخطر ہو گئی


نعت گوئی کے قابل میں فیضیؔ کہاں

میرے آقاؐ کی مجھ پر نظر ہو گئی

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دیگر کلام

واہ سوہنیاں من موہنیاں اللہ دا توں اللہ تیرا

فلک خوبصورت سجایا نہ ہندا

پھر مجھ کو عطا کیجئے دیدار مدینہ

قرض تیرے پیار دا آقاؐ اتاراں کس طرح

سرور عالم شاہ انام

حضور ہی ہیں

کسی کو خود رفتگی ملی ہے کسی کو خود آگہی ملی ہے

وہ یہ جان لے جو ہے بے خبر جسے شانِ آقاؐ پتہ نہیں

دو جہاں کا ہے تو بھرم آقا

فرازِ عرش پہ معراجِ معنوی کیا ہے