اُسوہ رسالت

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

تہذیب زندگی تِرے کِردار سے ہُوئی


جو مہر و ماہ بھی نہ زمانے کو دے سکے

وُہ روشنی تِرے دَر و دیوار سے ہُوئی


امکان کی حدوں سے پرے تک ترے قدم

پیمائشِ جہاں تِری پرکار سے ہُوئی


ساحل کی آرزُو ، نہیں تعلیمِ مُصطفؐے ٰ

یہ ناؤ تو روانہ ہی منجد ھار سے ہُوئی


مظلوم کے لہو کا مقدّر بھی جاگ اٹھا

اِس کی بھی قدر آپ کی تلوار سے ہُوئی


پتّھر بھی کھائے میرے رسُولِ کریمؐ نے

معراجِ حق بھی زینہء ایثار سے ہُوئی


تخلیقِ کائنات بھی صَدقہ حضورؐ کا

تزئینِ کائنات بھی سرکار سے ہُوئی


عِزّت ہُوئی جہاں میں مظفّر کی آپؐ سے

زر سے ہُوئی نہ جُبّہ و دستار سے ہُوئی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

درودِ پاک کی کثرت پسند آتی ہے

آو کہ ذکر حسن شہ بحر و بر کریں

بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

بھردو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی

زلف دیکھی ہے کہ نظروں نے گھٹا دیکھی ہے

عبدِ عاجز کو ہے شوقِ رقمِ نعتِ رسولؐ

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

میں خدمتِ آقاؐ میں ہوتا تو سدا کہتا لبّیکَ و سَعْدَیْکَ

جمال سب سے الگ ہے جلال سب سے الگ