ورائے مثل ہے کونین میں جمالِ حضور
تلاش کس لئے کرتے ہو تم مثالِ حضور
رگِ حیات میں بہتی ہے بوئے مشکِ ختن
مشامِ جاں میں مہکتا ہے جب خیالِ حضور
پسند ہے مجھے کچھ اس لئے بھی ذکرِ نبی
زباں پہ رہتی ہے شیرینیٔ مقالِ حضور
میں ان کی راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہوں
کبھی تو کاش یہ پلکیں ہوں پائمالِ حضور
ہمارے ہونٹ یقیناً نہیں ہیں اس قابل
نظر سے بارہا چومیں گے ہم نعالِ حضور
زمانہ رب سے طلب کر رہا ہو جب جنت
ہمارے لب پہ رہے مشکبو سوالِ حضور
ہمارا دل بھی یقیناً ہے ایک باغِ جناں
ہے اس میں جب سے سکونت پذیر آلِ حضور
عطائے جودِ مسلسل سخاوتِ پیہم
کثیر لطف و عنایات ہیں خصالِ حضور
جو دیکھتا ہے دل و جاں نثار کرتا ہے
حسِین ایسے ہیں اشفاق خد و خالِ حضور
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت