وہ منزلِ حیات ہے وہ جانِ انقلاب

وہ منزلِ حیات ہے وہ جانِ انقلاب

نورِ شعور بھی وہی وہ ہی مرا نصاب


عشقِ حضورؐ کے بنا بے لطف زندگی

سب رونقیں فضول ہیں ہر دلکشی عذاب


خطبات عالیہ ترے منشورِ آگہی

رشکِ بہار لہجہ ہر اک لفظ ہے گلاب


پتھر سرشت لوگوں کے لہجوں کی تلخیاں

کب لاسکیں کبھی تری ہمت میں اضطراب


دانشوری یہی ہے کہ ہر موڑ پہ سدا

سیرت کی روشنی سے ہی کرنا ہے اکتساب


تیری نگاہِ پاک سے جن کو ملا عروج

وہ منزلِ یقین کے رہبر تھے لاجواب


پتھر درخت جانور دنیائے انس و جاں

تیرے کرم کا سب پہ برستا رہا سحاب


ہم لوگ اس قدر ہیں حیا سے شکیلؔ دور

سیرت کا نور کررہا ہے ہم سے اب حجاب

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

سَر اگر آپؐ کے نقشِ کفِ پا تک پہنچے

اج پاک محمد آیا اے اج پاک محمد آیا اے

ہے بڑیاں شاناں والا یار میرا

تیغ نکلی نہ تبر نکلا نہ بھالا نکلا

مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ

رنگِ فطرت آپؐ کے فیضان سے نِکھرا حضورؐ

محبوب خدا ایک نظر دیکھنے آئے

محبوب خُدا نوں دو جگ دا سلطان ناں آکھاں تے کی آکھاں

آقاؐ حصارِ کرب سے ہم کو نکال دیں

زبان و دل سے مدحت کا جہاں بھر سے بیاں ارفع