وہ مت آئے اِدھر جو خود نگر ہے

وہ مت آئے اِدھر جو خود نگر ہے

برائے منکسِر مدحت نگر ہے


رُکے کیوں کامِ ناعِت ، ہاتھ میں جب

کلیدِ قفلِ ابوابِ اثر ہے


بہ فیضِ گنج بخشیِ شہِ خلد

کوئی داتا ، کوئی گنجِ شکر ہے


ترا خالد صفت ، پیشِ ہزاراں

نہتا بے خطر سینہ سپر ہے


دلِ انور مکینِ حجرۂِ قدس

مکانِ سرِّ وحدت ان کا سر ہے


خزف خصلت دلوں کو یہ بتادو !

’’نگاہ مصطفیٰ آئینہ گر ہے‘‘


ہو اس انگشت کوکیا شَق میں مشکل؟

کھلونا جس کے بچپن کا قمر ہے


جو وہ ناراض ہوں تو در ہے دیوار

اگر راضی ہوں تو دیوار در ہے


لیا جائے گا نام ان کا ، معظم

جبھی دنیائے دل زیر و زبر ہے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

ناں بخشش دا بُوہا کھلدا باغ خوشی دا کھل دا ناں

طیبہ جو یاد آیا ‘ آنسو ٹپک گئے ہیں

رسیا درود کے متمنی دعا کے ہیں

مصطفیٰ جان رحمت کی الفت لیے

چارہ گر ہے دِل تو گھائل عشق کی تلوار کا

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

قُدرت نے آج اپنے جلوے دکھا دیئے ہیں

چمنِ طیبہ میں سُنبل جو سنوارے گیسو

یَا اَللہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْم

میم سے ہیں محبٗوب وہ رَب کے