یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

زمیں تو کیا کائنات ساری جوارِ رحمت میں آگئی ہے


انا مُحمد“ صدائے حق تھی تمام ارض و سما میں گونجی

ہر اک زمانے کی رُوح بن کر ہر اک زمانے پہ چھا گئی ہے


وہ اک کرن جو حرا سے پھُوٹی ہر اُمتّی کا نصیب بن کر

نظر نظر میں اُتر گئی ہے نفس نفس میں سما گئی ہے


وہ شمعِ لاہوت کا اُجالا نہ جس کا سایہ نہ جس کا ہالا

وہ روشنی عرش سے اُتر کر دلوں کی وسعت پہ چھا گئی ہے


شجر، حجر، مہر و ماہ ، تارے اُنہیںؐ کے نقشِ قدم ہیں سارے

فلک تو پہلے ہی زیرِ پا تھا زمیں بھی قدموں میں آگئی ہے


نظر حدُودِ نظر سے آگے‘ قدم زمان و مکاں سے باہر

کُچھ اس ادا سے وہ ذاتِ اقدس بسوئے عرشِ علیٰ گئی ہے


حریمِ دل سے زباں پہ آئی تو سب نے کی میری ہمنوائی

چہار جانب جہاں جہاں تک صدائے صلِّ علیٰ گئی ہے


درِ نبیؐ پر کھڑا ہُوا ہُوں خُدا سے کچھ مانگنے کی خاطر

مُجھے یہ محسوس ہو رہا ہے اثر کو لے کر دُعا گئی ہے


خوشا کہ کہنے لگی ہے دُنیا غلامِ شاہِؐ مدینہ مُجھ کو

زہے مقّدر یہ سرفرازی جو میرے حصّے میں آ گئی ہے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

اے خاکِ مدینہ ! تِرا کہنا کیا ہے

ہر ایک مقام پہ اصلِ نشانِ رحمت ہے

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

اج آمد ہے اس سوہنے دی جو دو جگ نالوں سوہنا ایں

دل ہے چوبدار، سانس ایلچی رسولؐ کی

سرورِ دو جہاں

وہ زمیں ہے اور وہ آب و ہوا ہی اور ہے

وہ درد چاہئے مولا کہ چارہ ساز رہے

سرکار کی محفل کا عالم ہی نرالا ہے