یہ مرا قول نہیں یہ تو ہے غفار کی بات

یہ مرا قول نہیں یہ تو ہے غفار کی بات

وہ بناتے ہیں تو بنتی ہے گنہگار کی بات


میں نے مانا مری جھولی ہے عمل سے خالی

لیکن اونچی ہے بُہت میرے طر قدار کی بات


وہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا سنتے ہیں

کون اس طرح سنتا ہے طلبگار کی بات


اعتماد انکے کرم پر ہے نہ جانے کتنا

دید کی تاب نہیں کرتا ہوں دیدار کی بات


حق کے محبوب ہیں مطلوب ہیں مقصود بھی ہیں

کبھی ٹلتی ہی نہیں احمدِ مختارؐ کی بات


ہے یہی رحمتِ عالمؐ کے غلاموں کا نشاں

دشمنوں سے بھی کیا کرتے ہیں وہ پیار کی بات


جب حضوری میں بدل جاتی ہے دوری دل کی

منکشف ہوتی ہے پھر عالمِ اسرار کی بات


مضطرب ہے نہ شفا اور دوا کا طالب

ساری دنیا سے الگ ہےترے بیمار کی بات


دل کا عالم ہی بدل جاتا ہے اللہ غنی ،

چل نکلتی ہے جہاں احمدِ مختارؐ کی بات


اشک جب دیتے ہیں دستک تو سنی جاتی ہے

کسی بیکس کی ہو فریاد کہ نادار کی بات


جو بھی پہنچا یہی کہتا ہوا آیا خالدؔ

واہ کیا بات ہے آقاؐ ترے دربار کی بات

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

طیبہ سے منگائی جاتی ہے

تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے

نظر جو آئے گا سبز گنبد عجب نگاہوں کا حال ہوگا

میرے نام نہ چٹھی آئی رو رو چٹھیاں پائیاں

ہر اک دَور ترے دَور کی گواہی دے

بلاونا یار جے ویہڑے دُرود پڑھیا کر

آؤ مل کر سارے عالم کی یوں آرائش کریں

کرم کی اِک نظر ہو جانِ عالم یارسول اللہؐ

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کس کی آنکھیں کس کی ہے ایسی جبیں یا رحمت اللعالمیں