ذکرِ احمد سے تر زباں رکھیے
زندگی کو رواں دواں رکھیے
لے کے آ جائیے یہاں رکھیے
در پہ سرکار کے جِناں رکھیے
عظمتِ مصطفے پہ ہو جو نثار
جسم میں اپنے ایسی جاں رکھیے
گر سمجھنا ہے شانِ شاہِ اُمم
سامنے سیرِ لا مکاں رکھیے
نور والے کی نوری محفل میں
اب اٹھا کر قدم کہاں رکھیے
اب مدینے کی نوری گلیوں میں
مجھ کو سرکارِ دو جہاں رکھیے
ذکرِ سرکار جو کرے ہر دم
اپنے منہ میں وہی زباں رکھیے
اُن کے روضے پہ لا کے ایک طرف
چاند ، خورشید ، کہکشاں رکھیے
یا نبی رحمتوں کی چادر کا
حشر کے روز سائباں رکھیے
یہ مدینے کی سر زمیں ہے شفیقؔ
ایک کونے میں آسماں رکھیے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت