عظیم مفسرِ قرآن، شارحِ حدیث، محقق، مترجم، نعت گو شاعر فنا فی الرسول حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ ایک جلیل القدر علمی و ادبی شخصیت تھے۔ آپ کا اصل نام "محمد ابراہیم" تھا اور آپ 25 دسمبر 1932ء کو گنڈی ونڈ، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ فیصل آباد منتقل ہوئے اور وہیں علم و ادب کی خدمات انجام دیں۔
علامہ صائم چشتی نے قرآن پاک کی تعلیم اپنے والد شیخ میاں محمد اسماعیل سے حاصل کی۔ بعد ازاں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد میں علومِ دینیہ کی تعلیم مکمل کی۔ آپ نے صرف و نحو اور دیگر اسلامی علوم کا آٹھ سالہ کورس صرف دو سال میں مکمل کر کے اپنی علمی ذہانت کا ثبوت دیا۔ 1970ء میں مولانا غلام رسول رضوی سے دورہ حدیث کیا۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی میں بھی ڈپلومہ حاصل کیا۔
علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے نعتیہ ادب میں ایک عظیم سرمایہ چھوڑا۔ آپ نے نعت، قصائد، مناقب، رباعیات اور دوہوں پر مشتمل سینکڑوں کلام تخلیق کیے۔ آپ کی کل تصانیف کی تعداد 400 سے زائد ہے جن میں نثر و نظم دونوں شامل ہیں۔ آپ نہ صرف ایک ممتاز نعت گو شاعر تھے بلکہ ایک عظیم مفسر، مبلغ اور محقق بھی تھے۔
علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ 22 جنوری 2000ء بروز ہفتہ، 14 شوال المکرم 1420ھ کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی وفات سے نعتیہ ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
ہم نے اپنی ویب سائٹ پر حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور و معروف کتاب "کلیاتِ صائم" کو شامل کر لیا ہے۔ یہ کتاب ایک جامع نعتیہ مجموعہ ہے جس میں علامہ صاحب کی تقریباً 25 کتابیں یکجا کی گئی ہیں۔
کلیاتِ صائم میں شامل کلام روحانی کیفیت اور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہیں۔ یہ مجموعہ نعتیہ ادب کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند ہے۔
علامہ صائم چشتی کی انتھک کاوشوں اور نعت کے فروغ کے لیے تحریک کی بدولت آج فیصل آباد کو "شہرِ نعت" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی نعتیہ خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ہماری تازہ ترین خبروں اور مضامین سے باخبر رہیں