حیراں ہُوں نُدرتوں پر
تیری ہی قُدرتوں پر
ہے اِنحصارِ عَالَم
پروردگارِ عَالَم
یہ بستیاں یہ صحرا یہ کوہ یہ سمندر
رنگوں کا یہ تبسّم ہریالیوں کے اندر
فِطرت کے ہیں نمونے
کیا کیا بنائے تُو نے
نقش و نگارِ عَالَم
پروردگارِ عَالَم
لا تقنطوا کا ہم کو دے کر اصُول تُو نے
پھینکے ہیں جھولیوں میں رحمت کے پھُول تُو نے
چھینا ہے مُشکلوں کو
سُوکھے ہُوئے دِلوں کو
بخشی بہارِ عَالَم
پروردگارِ عَالَم
تُجھ پر بھی ہم فِدا ہوں تیرے نبیؐ کو چاہیں
قرآں ہماری منزل سُنّت ہماری راہیں
ایمان دے گواہی
ہم آخرت کے راہی
دیکھیں غبارِ عالَم
پروردگارِ عَالَم
تُو کھائے جِس کی قَسمیں مَیں بھی اُسی کے بس میں
جِس کے لِیے تصور توڑے سفر کی رَسمیں
مانگوں جھلک ذرا سی
ہر سانْس اُس کی پیاسی
وُہ جوئبارِ عَالَم
پروردگارِ عَالَم
جس کی زباں کے صدقے حُسنِ کلام تیرا
محبوبِ خاص تیرا مُختارِ عام تیرا
وُہ ہستیٔ قد آور
جس پر کیے نچھاور
لَیل و نہار عَالَم
پروردگارِ عَالَم
جب آنکھ میں رقم ہوں جلووں کی سُرخیاں سی
دیوارِ زندگی میں کھُل جائیں کھڑکیاں سی
سُورج سا مجھ میں اُترے
جب کوئے جاں سے گُزرے
وُہ شہسوارِ عاَلَم
پروردگارِ عَالَم
میرے رسُولؐ جیسا تھا اور نہ کوئی ہوگا
تیرے قلم میں یا رب وُہ رنگ ہی نہ ہوگا
تخلیق سے ہے ظاہر
تو مُنفرد مصوّر
وہ شاہکارِ عالم
پروردگارِ عَالَم
سِینہ سُلگ رہا ہے آنْسُو چھلک رہے ہیں
وہ میری معصیّت کو رحمت سے ڈھک رہے ہیں
قدموں پِہ گِر پڑا ہُوں
فردوس میں کھڑا ہُوں
میں شرمسارِ عَالَم
پروردگارِ عَالَم
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی