فن کے پردے میں بھی کی تیری عبادت میں نے
اپنے اشعار کو دی تیری صباحت میں نے
مرے اشعار میں یوں دفن ہیں اسرار ترے
پردہء ساز میں آواز ہو پنہاں جیسے
برسوں سے تری طرف رواں ہوں
ہمت ہے تو انتظار کر لے
اس توقع پہ میں اب حشر کے دِن گنتا ہوں
حشر میں اور کوئی ہو کہ نہ ہو تو ہوگا
وسعتِ دہر اِک اُجڑا ہوا مَعبد ہوتی
روزِ اوّل اگر اِبلیس نہ کرتا انکار
کیو ں پَھیر میں آتے اہرمن کی
یزداں کے بھی ہیں مزاج داں ہم
بزم اِنساں میں بھی اِک رات بسر کر دیکھو
ایک بار اپنی زمیں پر بھی اُتر کر دیکھو
پردہء ارض و سما کا یہ تکلُّف کیسا
ان حِجابوں میں تو جلوہ ترا پنہاں نہ رہا
نہیں تو خاک میں یہ قوت ِ حیات ہے کیا
وہ اس جہان میں پوشیدہ ہے کہیں نہ کہیں
چھان ڈالی ہے زمین اور فضا اور خلا
میں تری کھوج میں نکلوں تو کہا ں تک جاؤں
وہ جو ایک نقطہء نور تھا ‘ مری عقل میرا شعور تھا
جو سمجھ لیا تو صنم بنا ‘ نہ سمجھ سکے تو خدا ہوا
وہی خدا کہ جو افلاک سے اُترتا نہیں
اُسی کا عکس مجھے خاک پر نظر آئے
خدا کے لب پہ ہنسی ہے ‘ خدائی جھوم رہی ہے
تمہاری بات چلی ہے ‘ مری حسین خطاؤ
ہاں ‘ میں خاموش محبت کا بھرم رکھ نہ سکا
ہاں ‘ خدا کو تو ترا نام بتا رکھا ہے
تنہا ہے تا بہ ابد میرا دشتِ تنہائی
ندیم ؔ اب تو میرا ہمسفر خدا ہو جائے
میں عمر بھر درِ دل وا رکھوں گا اس کے لیے
کہ وہ خدا ہے ‘ تو پھر اپنے گھر بھی آئے گا
روز اک نیا سورج ہے تیر ی عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں
اہلِ ثروت پہ خدا نے مجھے سبقت دے دی
اُس کی رحمت نے قلم کی مجھے دولت دے دی
کائناتیں میرے خوابوں کی اسیر
اور قدرت سے میں کتنا چاہوں
ہم نے سجدہ کیا صرف ایک خدا کے در پر
ہم سر افراز گزرتے رہے درباروں سے
یہ راز مجھ پہ کھلا اس کی حُسن کاری سے
کہ آدمی ہے خدا کے مزاج کا پَرتو
بخش دے گا مجھے خدائے جمیل
میں کہ ہوں ایک مدح خوانِ جمال
خالی پڑی رہیں گی جہنم کی وسعتیں
یاد آئے گی نہ حُسنِ کرم کو حساب کی
جہنم میں جلے کیوں اُس کا شہکار
خدا کچھ بھی ‘ پر ایسا نہ ہوگا !
صرف آفات نہ تھیں ذاتِ الٰہی کا ثبوت
پھول بھی دشت میں تھے ‘ حشر بھی جذبات میں تھے
حمدِ ربّ جمال ہے یہ بھی
ذکر حسنِ درونِ سنگ کروں
شبِ تار سے نہ ڈرا مجھے ‘ اے خدا جمال دکھا مجھے
کہ ترے ثبوت ہیں بیشتر ‘ تری شانِ جاہ وجلال کے
جو تجھ کو دیکھے وہ خالق کی حمد کرنے لگے
عجب کمال ترے حُسن ِ بے مثال میں ہے
سب خدو خال خدا کے ہیں مصور جیسے
یہ جو انساں نظر آتے ہیں ‘ یہ تصویریں ہیں
تری رحمت تو مُسلّم ہے ‘ مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کا شانوں کی ؟
مرے شوق پر یہ گرفت کیوں‘ اے خدا یہ نفئ سرشت کیوں ؟
یہ وہ نشہ ہے ‘ جسے آدمی ترے آسمان سے لائے ہیں
تری خدائی میں شامل اگر نشیب بھی ہیں
تو پھر کلیم سرِ طوُر کیوں بلائے گئے ؟
اے خداوند ! ہر انسان کا جینا مرنا
تیری منشا ہے ‘ تو پھر اتنے جھمیلے کیوں ہیں ؟
میرے سوال کا ‘ یارب ‘ کوئی جواب تو دے
اُسے برسنا نہیں تھا تو ابر کیوں اُمڈا؟
ایک آواز مسلسل پیچھا کرتی ہے
انسانو! میں باغِ بہشت میں تنہا ہوں
ہم تو اللہ کے بھی قُرب سے بیگانہ ہیں
اجنبی ! ہم تجھے کچھ دُور سے پہچانیں گے
اُس کا ہونا ہے مرے ہونے سے
میں نہ ہوتا ‘ تو خدا کیا کرتا
اس لیے صرف خدا سے ہے تخاطب میرا
میرے جذبات کو سمجھے گا فرشتہ کیسے ؟
تو آدمی کا ہے معبود اور عظیم و جلیل
میں قُدسیوں کا ہوں مَسجُود اور خوار و زبوں
میں نے جو ‘ جرم کیے ‘ میری جبلّت تھے مگر
میرے اللہ ! قیا مت ہیں سزائیں تیری
الٰہی داد دے حسنِ نظر کی
تری شب میں دِیا میں نے جلایا
کیا سوائے موت ‘ کچھ بھی دست ِ قدرت میں نہیں
یہ تما شا تو ہے صدیوں سے مرا دیکھا ہُوا
یہ بھید ‘ تیرے سوا ‘ اے خدا ! کسے معلوم
عذاب ٹوٹ پڑے مجھ پہ ‘ کس کے لائے ہوئے
یارب! تو اُوجِ عرش سے اُترے تو یہ کہوں
اس عدل گاہ میں مارا گیا بے خطا سدا
یہ روزِ حشر ہے ‘ لیکن مرے حساب سے قبل
مجھے خدا کی عنایات کا حساب ملے
چلن خدا کا مجھ انساں سے نِبھ نہ پائے گا
اُسے مٹاؤ ں گا کیسے جسے بناؤں گا میں
اپنا اِدراک ہے در اصل خدا کا اِدراک
شاید اس خوف نے خود مجھ سے چھپایا ہے مجھے
میں کس ثبوت پہ الزام یہ خدا پہ دھروں
لکھے نصیب ‘ تو انساں بھی کر دیئے تقسیم
مجبور ہے جب بشر تو یارب
اعمال کا پھر حساب کیسا !
زندگی کرنے کا فن خود سیکھا ہی نہیں
اور سارے الزام خدا پر دھرتا ہوں
انجام بُرا ہوا انا کا
دَر بند ملا مجھے خدا کا
اپنے ایمان کو آوارہ نہ ہونے دو کبھی
ایک مل جائے تو اک اور خدا مت ڈھونڈو
وہ تو یکتا ہے ‘ مگر عالمِ تنہائی میں
میں نے گھبرا کے کئی نام پکارے اُس کے
اپنے اللہ سے شکوے کا محل ہو تو کروں
غم دیئے ساتھ ہی غم سہنے کی راحت دے دی
تُو حقیقت ہے تو آ اِس کی گواہی دینے
اب مجھے تیرا تصور نہیں بہلا سکتا
کہنا چاہوں مگر اے کاش کبھی کہہ پاؤں
آسمانوں سے اُتر آ کہ تجھے اپناؤں
ہر بشر کو جو خدا پاس بلا لیتا ہے
وہ خدا بھی تو کسی روز بشر تک پہنچے
دوزخ انسان پہ ہو جائے حرام
رب سے یہ وعدہء فردا چاہوں
سنا ہے عہدِ ماضی میں تو اِک آنسو ہی کافی تھا
نہ جانے عہد نو میں کیوں نہیں سنتا خدا میری
کانٹوں سے تو بھر دیا ہے آنگن
اک پھول بھی ‘ اے خد ا‘ کھلا دے
سہارا ہے مجھے جس کے محیطِ کبریائی کا
اُسی سے مجھ کو شکوہ ہے دُعا کی نارسائی کا
مجھے جب لفظ کی حرمت کا اتنا پاس رہتا ہے
تو پھر کیوں آسماں پر ٹھو کریں کھائے دُعا میری
چپ ہوں کہ چپ کی داد پہ ایمان ہے مرا
مانگوں دُعا جو میرے خدا کو خبر نہ ہو
بڑا سروُر ملا ہے مجھے دُعا کر کے
کہ مسکرایا خدا بھی ستارا وا کر کے
اس رشتہء لطیف کے اَسرار کیا کُھلیں
تُو سامنے تھا ‘ اور تصور خدا کا تھا
خدا کا شکر کہ ارزاں نہیں مرے سجدے
مرے وجود کا پندار ، لا اِ لہ میں ہے
ندیم ؔ تجھ کو خدا حدِ کائنات سے ماورا ملے گا
جو خالقِ کائنات ہے ‘ کائنات میں کس طرح سمائے
کتنا کافر ہے کربِ محرومی
ہم بھی دستِ دُعا اُٹھانے لگے
یہ جب تیری مشیت ہے تو کیا تقصیر میری ہے
تری تحریر آخر کس لیے تقدیر میری ہے
ہر حادثے کے بعد یہ اُلجھن رہی ندیم ؔ
بندے سے بے نیاز رہا کیوں خدا سدا
تو کبھی رات ‘ کبھی دن ‘ کبھی ظلمت ‘ کبھی نُور
تیرے جلوے‘ تجھے وحدت نہیں بننے دیتے
یہ انکشا ف اگر کفر ہے ‘ تو کیا کیجئے
فرشتے عرش پہ ‘ لیکن خدا بشر میں رہا
گردش کے آئینے میں بیٹھا ہے خدا
حد نظر تک تنے ہوئے حلقے کی طرح
مجبور نہیں خدا ‘ مگر کیوں
جو کچھ ہے ‘ ہدف ممات کا ہے ؟
جانے اب تک ہے خدا کیوں تنہا
کوئی خلوت بھی تو خلوت نہ رہی ؟
اب ایک بار تو قدرت جواب دہ ٹھہرے
ہزار بار ہم انسان آزمائے گئے
ایک ہوتے جو خالق و مخلوق
کیسے ابلیس درمیاں ہوتا
ہر تغیر سے ماورا ہونا
کتنا دشوار ہے خدا ہونا
یہ راز کیا ہے کہ ارض و سما کے خالق نے
کسی کو اپنے سوا جاوداں نہ رہنے دیا
دعویٰ ہے تجھے واعظ ! کیوں قربِ خدائی کا
تو نے اُسے سوچا ہے ‘ میں نے اُسے سمجھا ہے
موسی ٰ نہ سہی ‘ ندیم ؔ تو ہوں
مجھ کو بھی دکھائی دے ‘ الہٰی !
ہر انساں موت کی جانب رواں ہے
فغاں ہے ! اے میرے خالق فغاں ہے
راز ہے یہ بھی کبریائی کا
آدمی پاسباں خدائی کا
میرے نقادوں کو بتاؤ ‘ میرا بھٹکنا کھیل نہیں
دائیں بائیں گھوم آتا ہوں ‘ سمت کو سیدھا رکھتا ہوں
انساں کی اَنا بھی تو عبادت ہے خدا کی
اپنا جو نہ ہو وہ تو کسی کا نہیں ہوتا
خدا نے عطا کی مجھے زندگی
سو ایک ایک لمحہ امانت لگا
نہیں ہے کیوں کوئی حد تیری کائناتوں کی ؟
خدا سے پو چھتا رہتا ہوں ڈرتے ڈرتے ہوئے
ہیں افق پر جو بغلگیر خدا اور انساں
آسماں اور زمیں کی وہیں یکجائی ہے
ندیمؔ اولادِ آدم پر کبھی تو مہرباں ہوگی
وہ قدرت دے رہی ہے جو غذا کیڑے کو پتھر میں
تخلیق کے ذوقِ جاوداں سے
انسان ‘ خُدا کا ترجماں ہے
بگُولے رقص میں ہوتے ہیں جب تو سوچتا ہوں
کہ دشت پر بھی خُدا کا جمال جاری ہے
سمندروں کی تہوں سے بُلا رہا ہے مجھے
وہ موج موج سفینہ اُچھالنے والا
گھٹا جب دن کو شب کر دے ‘ تو وہ تیرا کرشمہ ہے
جب اُس کا حاشیہ چمکے ‘ تو یہ تنویرمیری ہے
اس حوالے سے کہ شہپارہء تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسا ن سے خوشبوئے ‘ خدا آتی ہے
نیلگوں آسماں کے محلوں سے
دے رہا ہے مجھے کوئی آواز
مرا کوئی بھی نہیں کائنات بھر میں ندیم ؔ
اگر خدا بھی نہ ہوتا تو میں کدھر جاتا
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مر حلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
نظامِ دہر تیرے اختیار میں ہے ‘ مگر
میں سوچتا ہوں کہ تُو کِس کے اختیار میں ہے
مرے لیے مرے غم بھی خدا کی رحمت ہیں
یہ میری عصمتِ کردار کی ضمانت ہیں
ہے میرے سامنے منظر انوکھا
خدا ہے اور ساون کی جَھڑی ہے
الٰہی ‘ جب بھی مَروں مَیں تو اِس ادا سے مَروں
کرن کی طرح گلوں میں نفوذ کر جاؤں
ندیم ؔ ارزاں نہیں تھے میرے سجدے
مرا معبود صرف اِک میرا رب تھا
شبِ فرقت میں جب نجم ِ سحر بھی ڈُوب جاتا ہے
اُترتا ہے مرے دِل میں خدا آہستہ آہستہ
خُدا کے نُور کو چُھو کر یہ سوچتا ہوں ندیم ؔ
کہاں کہاں مجھے لائی مرے خیال کی رَو
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال