کعبے کی رونق کعبے کا منظر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر
حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
حمد خدا سے تر ہیں زبانیں ، کانوں میں رَس گھولتی ہیں اذانیں
بس اِک صدا آ رہی ہے برابر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
قطرے کو جیسے سمیٹے سمندر ، مجھ کو سمیٹے مطاف اپنے اندر
جیسے سمیٹے آغوشِ مادر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
مانگی ہیں میں نے جتنی دعائیں ، منظور ہوں گی مقبول ہوں گی
میزابِ رحمت ہے میرے سر پر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
یاد آگئیں جب اپنی خطائیں ، اشکوں میں ڈھلنے لگی التجائیں
رویا غلافِ کعبہ پکڑ کر، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
اپنی عطا سے بلوا لیا ہے ، مجھ پر کرم میرے رب نے کیا ہے
پہنچا حطیم ِ کعبہ کے اندر ، اللہ اکبر اللہ اکبر
بھیجا ہے جنّت سے تجھ کو خدا نے ، چو ما ہے تجھ کو خود مصطفیٰ نے
اے سنگِ اسود تیرا مقدر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
جس پر نبی کے قدم کو سجایا ، اپنی نشانی کہہ کر بتا یا
محفوظ رکھا رب نے وہ پتھر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
محشر میں ہو نہ مجھے پیاس کا ڈر، ہوں مہرباں مجھ پر ساقئ کوثر
رب سے دعا کی زم زم کو پی کر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
دیکھا صفا بھی مروہ بھی دیکھا ، رب کے کرم کا جلوہ بھی دیکھا
دیکھا رو اں اک سروں کا سمندر، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
کعبے کے او پر سے جاتے نہیں ہیں ، کس کو ادب یہ سکھاتے نہیں ہیں
کتنے مؤدّب ہیں یہ کبوتر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
تیرے کرم کی کیا بات مولا، تیرے حرم کی کیا بات مولا
تا عمر کر دے آنا مقدر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
مولا صبیحؔ اور کیا چاتا ہے ، بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے
بخشش کے طالب پہ اپنا کرم کر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی