مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

عرش تک گنجائشِ پرواز دیتا ہے مُجھے


کُہنہ ہونے ہی نہیں دیتا وہ میری داستاں

جب بھی لکھتا ہے، نیا انداز دیتا ہے مُجھے


آپ ہی رکھتا ہے میرے سامنے سربستہ راز

آپ ہی توفیقِ کشفِ راز دیتا ہے مُجھے


زندہ رکھتا ہے مُجھے رنج و خُوشی کے درمیاں

ساز دیتا ہے، شکستِ ساز دیتا ہے مُجھے


شب کے پردے میں مُجھے کرتا ہے انجام آشنا

دِن کی صُورت اِک نیا آغاز دیتا ہے مُجھے


جب مَیں لَوٹ آتا ہُوں دشتِ چار سُو کو چھان کر

دل میں چھُپ جاتا ہے اور آواز دیتا ہے مُجھے


دُور رکھتا ہے وہ عاصی مُجھ سے ساری ذلّتیں

وہ کریم اِعزاز پر اعزاز دیتا ہے مُجھے

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

میں خاکسار بھلا کس شمار میں یارب

اندھیرے کفر کے تو نے مٹا دیے مولیٰ

چھپ کر بھی ہم جو کر رہے ہیں

میں تیرا فن ہوں

وردِ لب اک نغمۂ حمدِ خدا رہنے دیا

نہ کوئی رُسوخ و اَثر چاہیے

تُو نے مجھ کو حج پہ بُلایا

سب میں شامل سب سے جدا ہے اے میرے رزاق

بس الله الله الله اے

اللہ اللہ کیا کر