نہ کوئی رُسوخ و اَثر چاہیے

نہ کوئی رُسوخ و اَثر چاہیے

فقط تیری سیدھی نظر چاہیے


زمانہ کی خوبی زمانے کو دے

مجھے صرف دردِ جگر چاہیے


رہے جس میں عشقِ حبیبِ خدا

وہ دل وہ جگر اور وہ سر چاہیے


کوئی راج چاہے کوئی تخت و تاج

مجھے تیرے پیارے کا در چاہیے


بنے جس میں تقدیر بگڑی ہوئی

الٰہی مجھے وہ ہنر چاہیے


ہیں دنیا میں لاکھوں بشر پر وہاں

خبر کے لئے بے خبر چاہیے


خزانے سے رب کے جو چاہو سو لو

نبی کی غلامی مگر چاہیے


دعائیں توسالکؔ بہت ہیں مگر

اثر کے لیے چشمِ تر چاہیے

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

موجود بہر سمت ہے اک ذاتِ الٰہی

تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے

کُملائی ہوئی روح کُو یارب گُلِ تر کر

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

ہم جتنی بھی تعریف کریں تیری بجاہے

اے خدائے جمال و زیبائی

ہر ایک فکر کو معلوم آشنا کر دے

ناں اُس دی ابتداء کوئی ناں اُسدی انتہاء کوئی

تصور سے بھی آگے تک در و دیوار کھل جائیں

ربّ سچّے دیاں اُچیاں شاناں