پل صراطوں سے گزر ، جسم نہ رکھ

پل صراطوں سے گزر ، جسم نہ رکھ ، دل ہو جا

زندگی سرحدِ توحید میں داخل ہو جا


شوق تعظیم سراغ اس کا لگانا ہے اگر

راستے کاٹ کے آوارہء منزل ہو جا


صرف اپنے خد و خال میں مصروف نہ رہ

پس آئینہ کی آواز میں شامل ہو جا


پاؤں اٹھے گا ترا، آئے گی آہٹ اس کی

بے نشانی کا سفر کرنے کے قابل ہو جا


اپنی منائیاں بھی دل کے حوالے کردے

سانس تقسیم نہ کر ، عمر کا حاصل ہو جا


کس نے پہچانا ہے اللہ کے سوا اللہ کو

بے پناہیء طلب کا متحمل ہو جا


ریت پر بیٹھ کر نظارہ گرداب نہ کر

جہاں گہرائی اترتی ہے وہ ساحل ہو جا


کرسی و عرش بھی پلکوں پہ اٹھا سکتا ہے

خوف و امید کے مابین کا حامل ہو جا


مار سکتا نہیں پھر کوئی مظفر تجھ کو

اپنے احساس مسیحائی کا قاتل ہو جا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- میرے اچھے رسول

دیگر کلام

تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے

اللہ تعالیٰ ہے جہانوں کا اجالا

نہیں ہے اس کے سوا کوئی اے خدا خواہش

میرے مالک اے خدائے ذوالجلال

حیراں ہُوں نُدرتوں پر

فجر دے رنگ ثنا تیری کرن یا اللہ

لہندے چڑھدے میں جس پاسے اپنی نظر اٹھاواں

نُورِ مدحت سے مرا قلب منور رکھنا

ہیں زمیں فلک کی جو رونقیں

سب تعریفاں تیرے لئی نیں سوہنیا رباّ