تو ہے مولا ایک
میرا دل اور دلبر ایک
تیرے کتنے ہی ساگر ہیں میرا ساگر ایک
آنکھیں دو ہیں سپنا ایک
تو ہے مولا ایک
تو جب داتا میرا میرے ہاتھ میں کاسہ کیوں
بادل تیرے دریا تیرے پھر میں پیاسا کیوں
یا تو میری پیاس بجھا دے
یا پھر مجھے جلا دے
کردے کام ہے میرا ایک
تو ہے مولا ایک
شیشہ بھی دیکھوں تو سامنے آ جاتا ہے تو
گرنے لگتا ہوں تو تھامنے آ جاتا ہے تو
رنگ ہے خوشبو ہے جھونکا ہے
جانے تو کیا ہے
پردے کئی تماشا ایک
تو ہے مولا ایک
تیری دنیائیں لاکھوں ہیں میری دنیا ایک
کسی عدد سے ضرب تجھے دوں باقی بچے گا ایک
ایک کے اندر ڈوبا ایک
ہم دو ہیں یا ایک
ایک ہے مولا ایک
ایک ہے مولا ایک
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- لا شریک