زمیں کے لوگ ہوں یا اہلِ عالمِ بالا

زمیں کے لوگ ہوں یا اہلِ عالمِ بالا

ہر اِک زباں پہ ہے سُبحَانَ رَبّی الاَ عْلیٰ


تِرے قلم کی گواہی ، مرقّعِ عَالَم

فضائیں آئِنہ ہیں ، دِل ہو دیکھنے والا


دِیے حسین خدو خال تُو نے مٹّی کو

تِرے جمال کے سانچوں نے آدمی ڈھالا


تھمائی مہر کو لَیل و نہار کی ڈوری

صبا کو سونپ دی آرائشِ گُل و لالہ


زمینِ تِیرہ کے مُنہ سے لگا دِیا تُو نے

مَہ و نجوم بھرا آسمان کا پیالہ


پڑھے قصیدہ وحدت ، ہجومِ کون و مکاں

تو سب کا رب ہے کسی نے تجھے نہیں پالا


مُجھے ہی تُونے دیا اِختیارِ لغزش بھی

مُجھی پہ اپنی خلافت کا بوجھ بھی ڈالا


اُتار کر مِرے سِینے میں آگہی کے چانّد

بصیر توں کا مِرے گِرد کھینچ دے ہالہ


ہر ایک سانّس کو میری ، بنا چراغِ حرم

نہ ہو ذرا بھی ، مِرا نامہ عمل کالا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

ربّ سچّے دیاں اُچیاں شاناں

صنّاع ِگُل و لالہ و نقّاشِ چمن راز

نُورِ مدحت سے مرا قلب منور رکھنا

عالمِ کل پہ کرم رب کا سوا ہوتا ہے

لبِ ازل کی صدا لا الہ الا اللہ

میرے اللہ تیری رضا چاہیے

مرے لئے مرے اللہ دو حرم ہیں بہت

کیسے بتلاؤں تم کو کہ میرا ہے مقدر جگایا خدا نے

حمد ہوتی نہیں دعا کے بغیر

بزم افلاک میں ہر سو ہے اجالا تیرا