موسم گل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے

موسم گل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے

میرے گھر قافلہ عیش کی مہمانی ہے


مستی وکیف میں ہنگام غزل خوانی ہے

جس طرف دیکھئے جلووں کی فراوانی ہے


باغ فردوس سے بارات اتر آئی ہے

چاندنی بام شریعت پہ کھر آئی ہے


آج بن آئی ہے اسلام کے معماروں کی

رحمتیں پھوٹ پڑی ہیں مرے سرکاروں کی


کوئی توقیر تو دیکھے ذرا دستاروں کی

کتنی پیاری ہے خوشی اپنے فدا کاروں کی


آگئی باد صبا خلوت زیبا لے کر

باغ طیبہ سے مہکتا ہوا سہرا لے کر


حافظ ملت بیضاء کی نظر کا تارا

یعنی محبوب و محب دونوں کے دل کا پیارا


باپ مشرق کا تو فرزند ہے مغرب کا امام

دونوں ملجائیں تو قبضہ میں ہو عالم کا نظام


گل عباس کی خوشبو سے معطر دامن

اور شبیر کے چہرے پہ مہکتا گلشن


وادی شوق میں قاسم سا جواں سال بھی ہے

خود وہ تنہا نہیں عباس کا اقبال بھی ہے


ایک حجن جسے کہتے ہیں دلہن کی دادی

ان کے ارمان کا آئینہ ہے ساری شادی


کتنے مسرور ہیں حامد کی اداؤں کے امیں

مصطفیٰ کی نگہ لطف سے سب کو تسکیں


کوئی حافظ ہو کہ قاری ہو بہم ہیں دونوں

ابروئے جلوہ قرآن کے خم ہیں دونوں


ایک پیغام خوشی دونوں کے گھر آیا ہے

نقش اخلاص کا چہروں پہ ابھر آیا ہے


جس کی آغوش میں پلتے ہیں نبی کے وارث

جس کے دربار میں بکتے ہیں نبی کے وارث


رشتہ عقد کا اتمام کیا ہے اس نے

کام دونوں کا خوش انجام کیا ہے اس نے

شاعر کا نام :- علامہ ارشد القادری

کتاب کا نام :- اظہار عقیدت

دیگر کلام

نانے دا دین بچایا اے زینب دے سوہنے ویراں نے

ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

یہی نسبت مری اک نسبتِ لافانی ہے

السّلام اے نوعِ انساں را نویدِ فتحِ باب

ہم شکلِ مصطفیؐ کی تو سیرت حسِین ہے

مُسّلَم ہے محمؐد سے وفا صدّیقِ اکبر کی

عشق کی انتہا سیدہ فاطمہ بنت خیر الوریٰ

ؑرہبر کارواں حسینؑ ‘ رہر و ِبے گماں حسین

شکرِ خالق کس طرح سے ہو ادا