زینبؑ، نبیؐ کا ناز، اِمامت کی آبرُو

زینبؑ، نبیؐ کا ناز، اِمامت کی آبرُو

جس کے شرف کی دھوم ہے عالم میں چار سو

شرم و حیا کی جھیل ، شرافت کی آبجوُ

جبریؔل جس کا نام نہ لیتا ہو بے وضو

وہ جس کا ذکر سن کے فضا عطر بیز ہے

تعظیم دیکھنا کہ قلم سجدہ ریز ہے


بزمِ نِساء کی صدر، مصائب میں حق شناس

جس کی رِدا تھی دیں کے لیے خُمس میں لباس

جس کا وجود، حق کے ارادوں کا اقتباس

کو ثر کی موج بن گئی جس کے لبوں کے پیاس

جو لُٹ کے بھی وجودِ خُدا کی دلیل تھی

اپنی صداقتوں کی جو تنہا وکیل تھی


مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلی

جس نے حُسینیّت کو سجایا گلی گلی

کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلی

لیکن سِکھا گئی ہے جہاں کو علیؑ علیؑ

اِسلام بچ گیا یہ اسی کا کمال تھا

ورنہ خدا کے دیں کا تعارف محال تھا


ہرچند اُس کے باغ کی ہر شاخ جھڑ گئی

لیکن مثالِ برق ہواؤں سے لڑ گئی

بھائی کے ساتھ ساتھ اصولوں پہ اَڑ گئی

زینبؑ ضمیرِ سنگ میں آئینے جَڑ گئی

بھائی سے یوں بہن نے تڑپ کر عَلَم لیا

آخر یزیدیت کو فتح کر کے دَم لیا


طاعت میں بے مثال، شجاعت میں بے بدل

قدموں میں بھی ثبات، ارادوں میں بھی اٹل

سیرت میں بُردبار، بصیرت میں بے خلل

معیار با وقار تو گفتار بَر محل

انساں کو زندگی کا قرینہ سِکھا گئی

زینبؑ حُسینیت کو بھی جینا سِکھا گئی


اللہ رے عزم و ہمّتِ بنتِ شہِ نجف

حالات غم بجاں تھے تو جذبات سر بکف

ہر چند ریزہ ریزہ تھا احساس کا صدف

پھر بھی بصد خروش چلی شام کی طرف

ظلمت کو عکسِ صبحِ درخشاں بنا دیا

پاؤں کے آبلوں کو گلستاں بنا دیا


زنّداں میں حریّت کے دریچوں کو وا کیا

ہر فرضِ کِردگار اُجڑ کر ادا کیا

اِسلام کو حسینؑ سا بھائی عطا کیا

پھر بھی یہ پوچھتے ہو کہ زینبؑ نے کیا کیا

دیں کی خزاں کو تھی جو ضرورت بہار کی

زینبؑ نے ہنس کے چادرِ زہرؑا نثار کی


پردے میں رہ کے ظلم کے پردے اُلٹ گئی

پہنی رَسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی

نظریں اُٹھیں تو جَبر کی بدلی بھی چھَٹ گئی

لَب سی لیے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی

بولی تو پتّھروں کو پگھلنا سِکھا گئی

اِنساں کو لغزشوں میں سنبھلنا سکھا گئی


مریمؔ مزاج، عرش مکاں، آسماں قدم

عصمت مآب، خلدِ زمیں، کہکشاں حرم

زہرؑا شعور، حاجرہ خو، مصطفےٰؐ حشم

خالق صفت، کلیمِ زباں، مرتضےٰ کرم

بہرِ ستم یہ صبر کی شمشیر بن گئی

زینب دیارِ شام میں شبّیر بن گئی


دیکھا جو کربلا میں دِل دیں کا اِنتّشار

نکلی نیامِ خیمہ سے شمشیرِ کردگار

ملنے لگا زمیں میں تشدّد کا اقتدار

مجبُور ہو کے رہ گیا شاہی کا اِختیار

حملہ کیا تو کر گئی اعلانِ عام بھی

تا حشر اب نہ لے کوئی بیعت کا نام بھی


روحِ وفا، مزاجِ حیا، پیکرِ حجاب

وہ جس کے سائے سے بھی گریزاں تھا آفتاب

لیکن گہن میں دیکھ کے زہرؑا کا ماہتاب

آیا کچھ اس طرح سے طبیعت میں انقلاب

بعد از حسینؑ صبر کی عکّاس بن گئی

بنتِ علیؑ جلال میں عبّاس بن گئی


گِرتے ہُوئے عَلم کو سنبھالا کچھ اس طرح

بھائی کے خوں سے دیں کو اُجالا کچھ اس طرح

تاجِ شہی فضا میں اُچھالا کچھ اس طرح

نطقِ پَدر میں لہجے کو ڈھالا کچھ اس طرح

ہر بات ذوالفقار کی جھنکار بن گئی

پردہ نشیں تھی حیدؑرِ کرار بن گئی


طے ہوچکے جو صبرِ مسلسل کے مرحلے

دیکھو وہ لب ہلے وہ کھلے دیں کے مسْلے

چَونکے خُمارِ خواب سے مدّت کے ولولے

زینبؑ جگا رہی ہے سرِ شام زلزلے

آواز گونجتی ہے جو عرشِ برین پر

جبرؔیل پَر بچھائے ہُوئے ہے زمین پر


لو گو زمیں بھی ہم ہیں، فلک بھی فضا بھی ہم

حق آشنا بھی، خالِقِ حق کی رضا بھی ہم

لوح و قلم بھی ہم ہیں، قدر بھی قضا بھی ہم

عادل بھی ہم، قسیمِ جزا و سزا بھی ہم

دیکھو ہمیں کہ ہم ہی رُخِ ذُوالجلال ہیں

پہچان لو کہ ہم ہی محمّدؐ کی آل ہیں


سوچو کجا یہ رنج و محن اور ہم کجا

دیکھو کجا یہ طوق ؤ رسن اور ہم کجا

لوگو کجا یہ سُرخ کفن اور ہم کجا

بولو، کجا یہ بھیڑ، گھٹن اور ہم کجا

پوچھو، مرے چمن کے شگوفے کدھر گئے ؟

کتنے یتیم تھے جو سفر ہی میں مرَگئے ؟


یہ بے رِدا اَسیر محمدؐ کے گھر کے ہیں

سارے ہی تشنہ لب ہیں اور آٹھوں پہر کے ہیں

مہمان کچھ یتیم یہاں رات بھَر کے ہیں

پاؤں میں آبلے بھی اَبھی تک سفر کے ہیں

تحریر کس طرح کی یہ لَوحِ جہاں پہ ہے

منبر پہ بے نماز، نمازی سِناں پہ ہے


کھُلنے لگی وہ بات جو اب تک تھی راز میں

آیا جو زلزلہ سا ضمیرِ حجاز میں

یہ احتجاج بارگہِ بے نیاز میں

یارَب ! سرِ حسینؑ کٹے اور نماز میں

یہ کہہ کے جب حسینؑ کو دیکھا تو رُک گئی

زینبؑ خموش ہو کے سکینہؑ پہ جُھک گئی

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- موجِ ادراک

دیگر کلام

ہے میرے شیخِ کامل کا زمانے میں ہُنر زندہ

قلادہ شاہِ جیلاں کا گلے میں ڈال رکھا ہے

ہوا ہے آپ کے در پر قیام یا زہرا

طرزِ اُلفت میں محبت میں وفاداری میں

علیؑ علیؑ عرفان کا در ہے ‘ علی ؑ گویا ولی گر ہے

حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو

اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم

کمال آپ کی ہمت خدیجۃ الکبریٰ

شاہاں دے نالوں چنگا اے منگتا فرید دا

خدا کے فَضْل سے میں ہوں گدا فاروقِ اعظم کا