جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

ضو فشاں وحدانیت روشن اکائی ہو گئی


حشر میں جس وقت چشمِ مصطفائی ہو گئی

پھر سمجھ لو قیدِ دوزخ سے رہائی ہو گئی


میں تلاوت کر رہا تھا آیتیں قرآن کی

اور نبیِٔ پاک کی مدحت سرائی ہو گئی


مشکلوں میں جب اغثنی یا نبی میں نے کہا

دیکھتے ہی دیکھتے مشکل کشائی ہو گئی


قبر کی ظلمت مٹی ہر سو اجالا ہوگیا

جس گھڑی سرکار کی جلوہ نمائی ہو گئی


سب بھٹکتے پھر رہے تھے گمرہی میں چارسو

آگئے آقا مِرے تو رہنمائی ہو گئی


تھا شفیق ؔ آقائے نعمت کا وسیلہ اس لیے

ہاتھ اُٹّھے بھی نہ تھے حاجت روائی ہو گئی

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

دل مرا مدینے کے آس پاس رہتا ہے

آیا غلام شاہِ دنیٰ کی نگاہ میں

رشتہ نہیں ہے جس کا تِری بارگاہ سے

کیویں کعبے توں نظراں ہٹاواں

مالکِ کون و مکاں خود ہے ثنا خوانِ رسولﷺ

ایہہ رات نظاریاں والی اے اس رات دیاں کیا باتاں نے

گئے ٹُر چھڈ کے مینوں سب سفینے یا رسول اللہ

ہے کبھی دُرود و سلام تو،کبھی نعت لب پہ سجی رہی

روح نے اللہ سے عشقِ پیمبر لے دیا

اوتھے دل بس ایخو ای چاہوندا سی مسجدِ نبوی دے در و دیوار چُمّاں