آج دل نور ہے میری جاں نور ہے

آج دل نور ہے میری جاں نور ہے

آج جس سمت دیکھوں وہاں نور ہے


فرش کا نور مہماں ہوا عرش پر

میہماں نور ہے میزباں نور ہے


نور لینے کو آئے وہ جبریل امیں

اور سواری جو لائے وہ براق ہے


قافلے میں کوئی غیر نوری نہیں

راہ کو دیکھئے کہکشاں نور ہے


حق نے قرآن میں نورِ ثانی کہا

بولے سرکار خلقت من نور اللہ


تم کہو ان کو اپنے ہی جیسا مگر

ہاں میں دعوے سے کہتا ہوں ہاں نور ہے


موسلا دھار انوار کی بارشیں

دیکھنا ہو یہ منظر مدینے چلیں


سر زمیں نور ہے آسماں نور ہے

ان کی گلیوں کا اک اک مکاں نور ہے


مصطفیٰ عبدِ رب اور جمال النبی

دیکھنے کی تمنّا تھی اللہ کی


گفتگو جو ہوتی جس نے کی جس سے کی

نور کے لفظ ہیں اور بیاں نور ہے


نور والے کی سچی غلامی میں ہو

آج کی شب انہی کی سلامی میں ہو


یاد میں ان کی آنسو بہاتے رہو

آج کی شب یہ آبِ رواں نور ہے


یہ کرم اے ادیبؔ حق کا ہے آج شب

بز م میں جو بھی آئے ہیں نوری ہیں سب


جتنی ساعت نبی کی جو نعتیں پڑھے

اتنی ساعت ہر اک نعت خواں نور ہے

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے

اک اچھی نعت ضروری ہے زندگی کے لیے

آنکھوں کا تارا نامِ محمد

انبیا کو بھی اجل آنی ہے

جب کن فکاں کا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

طیبہ میں پہلا نقش حَسَن مسجدِ قُبا

تمنّا ہے شعور و آگہی کی

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

شاہ خیر الا نام آتے ہیں

دل ونگاہ کی دُنیا نئی نئی ہوئی ہے