انبیا کو بھی اجل آنی ہے

انبیا کو بھی اجل آنی ہے

مگر ایسی کہ فقط آنی ہے


پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات

مثل سابق وہی جسمانی ہے


روح تو سب کی ہے زندہ ان کا

جسمِ پُر نور بھی روحانی ہے


اوروں کی روح ہو کتنی ہی لطیف

ان کے اجسام کی کب ثانی ہے


پاؤں جس خاک پہ رکھ دیں وہ بھی

روح ہے پاک ہے نورانی ہے


اس کی ازواج کو جائز ہے نکاح

اس کا ترک باتے جو فانی ہے


یہ ہیں حیی ابدی ان کو رضا

صدقِ وعدہ کی قضا مانی ہے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

عمر ہو میری بسر اُس شہر میں

بلند میرے نبی سے ہے

جہان رب نے بنائے حضور کی خاطر

دل کو شعور، ذہن گو گیرائی مل گئی

اونچوں سے اونچی میری سرکار ہے

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم

بامِ قوسین پر ہے علم آپ کا

تم بات کروہو نہ ملاقات کرو ہو

ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی