آؤ آؤ ادھر طالبانِ کرم

آؤ آؤ ادھر طالبانِ کرم

مہربان کبریا آج کی رات ہے


پھول صلی علیٰ کے نچھاور کرو

محفل مصطفیٰ آج کی رات ہے


سرور دو جہاں کی ہے محفل سجی

ابر رحمت کی پیہم لگی ہے جھڑی


آج مانگو مدینے کی سب حاضری

مانگنے کا مزہ آج کی رات ہے


یوں بسر ہوں شہا میرے شام و سحر

ہو گی سبز گنبد پہ ہر دم نظر


ہو کرم مجھ پہ حسنین کے نام پر

یہ مری التجاء آج کی رات ہے


نبی محترم یا شفیع امم

مجھ کو جینے نہیں دیتے دُنیا کے غم


ہو نگاہ کرم تاجدار حرم

میری اتنی دُعا آج کی رات ہے


موت کی ہم نہ جینے کی باتیں کریں

آؤ آؤ مدینے کی باتیں کریں


رحمتوں کے خزینے کی باتیں کریں

جشن خیر الوریٰ آج کی رات ہے


ہیں جو چرچے ادھر آپ کے فرش پر

ذکر صلی علی ہے ادھر عرش پر


لب پہ ہر اک کے ہے ذکر خیرالبشر

کیسی راحت فزا آج کی رات ہے


جاں کو تسکین ملی جان کو راحت ملی

سرور دو جہاں کی محبت ملی


ان کے صدقے نیازی ہے عزت ملی

دل مدینہ بنا آج کی رات ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

ذرہ قدموں کا ترے چاند ستارے جیسا

تری بے کراں ذات انوار سے پُر

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

کوئی جبرئیل آکر، کرے چاک میرا سینہ

جن و اِنسان و مَلک کو ہے بھروسا تیرا

میری خوش بختی کے آثار نظر آتے ہیں

لفظ پھولوں کی طرح مہکے ہوئے ہیں آج بھی

حرم کی اذان حسین اللہ اللہ

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

مصطفیٰ صلِّ علیٰ سید و سرور کے طفیل