ایک امی لقب ہے جو محبوب رب پہنچا عرش علی آج کی رات ہے
ہر طرف شور ہے مرحبا مرحبا جشن معراج کا آج کی رات ہے
جھومتی پھر رہی ہے ہوا ہر طرف مہکی مہکی ہوئی ہے فضا ہر طرف
نکھری نکھری سی ہے چاندنی ہر طرف کیسی فرحت فزا آج کی رات ہے
راستے عرش کے سب سجائے گئے جس گھڑی کملی والے بلائے گئے
نور کے فرش ہر سو بچھائے شاہ دولہا بنا آج کی رات ہے
در پر حاضر ہوئے جبرائیل امیں دست بستہ ہیں کہتے جھکا کر جبیں
یاد کرتے ہیں خود احکم الحاکمیں مژدہ جانفزا آج کی رات ہے
قلب پرنور میں لے کے امت کا غم چل پڑے رب سے ملنے شفیع امم
عرش نے کملی والے چومے قدم کیسا رتبہ ملا آج کی رات ہے
لے لیا بڑھ کے رحمت نے آغوش میں محو جلوہ تھے لیکن رہے ہوش میں
میرے مولا نے آکر کہا جوش میں مانگ جو چاہتا آج کی رات ہے
اپنے محبوب سے کبریا نے کہا تو ہے محبوب میرا میں خالق ترا
فیصلہ جو ترا فیصلہ وہ مرا یہ مرا فیصلہ آج کی رات ہے
یا خدا مجھ کو اُمت کا رہتا ہے غم مری خاطر تو کر دے بس اتنا کرم
میری اُمت کا محشر میں رکھنا بھرم یہ دعا یا خدا آج کی رات ہے
پھر یہ اعلان معراج جاری ہوا جو ہے تیری رضا ہے وہ میری رضا
تیری امت کی میں بخش دوں گا خطا تجھ سے وعدہ مرا آج کی رات ہے
کبریا سے شفاعت کے تجھے ملے باغ امید کے خوب پھولے پھلے
مجھ سے عاصی خطا کار بخشے گئے باب رحمت کھلا آج کی رات ہے
یا خدا صدقہ معراج کی رات کا ہم غلاموں کو پھر بھی مدینہ دکھا
لب پہ جاری رہے ذکر صل علیٰ یہ میری التجا آج کی رات ہے
ہے یہ اتنی سی معراج کی داستاں ہے نیازی یہ قرآن کا ہی بیاں
کملی والا مکاں سے گیا لا مکاں کیا عجب معجزہ آج کی رات ہے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی