ایسا معطر ، ایسا معنبر
ریگِ عرب میں ایسا گُلِ تر
شمِع شبستاں گیسوئے مُشکیں
صُبحِ سعادت رُوئے منوّر
سایہ فگن ہے دونوں جہاں پر
رنگِ قبائے محبُوبِ برتر
جس وقت چاہے قبلہ بدل دے
ہر اِک ادا ہے مقبُولِ داور
اُن کے جِلو میں گرمِ سفر ہے
روزِ ازل سے تاروں کا لشکر
آفاقیت سی آفاقیت ہے
کوئی نہ ہمتا ، کوئی نہ ھمسر
میں بن گیا ہوں اُن کے کرم کی
زندہ علامت اے میرے ہمسر !
جس دن ہوئی تھی جلووں کی بارش
بوند اک پڑی تھی میرے بھی دل پر
اِک لمحہ دیکھا آئینہ بن کر
برسوں رہا ہوں حیرت کا پیکر
اُن کی گدائی حِصّے میں آئی
چمکا ہے کیسا اپنا مقدر
اُلفت بھی وحشت بے نُورِ دانش
دانش بھی ظلمت بے عشقِ سروؐر
اُمّی نہیں ہے ، اُمّی لقب ہے
عرفان و دانش اُس گھر کے چاکر
ہم جِنس ہو کر یکساں نہیں ہے
وہ ایک گوہر ، میں ایک پتھر
مَیں ایک لمحہ ، وہ اِک زمانہ
مَیں ایک قطرہ ، وہ اِک سمندر
لاہُوت کیا ہے ، جبروت کیا ہے
اُن کی گزر گاہ کا ایک منظر!
رُوح الْقَدس ہے احساسِ باطن
عرشِ معلّےٰ ، فکرِ پیمبرؐ
کیسا توّسط ، کیسا توّسل
ھر شے پہ قُدرت ، ھر شے مَسخَر
یہ آسماں کیا ، یہ لامکاں کیا
کیا کُچھ نہیں ہے سینے کے اندر
ہیں اُن کے اپنے انوار سارے
فرشِ زمیں پر ، عرشِ بریں پر
سرمایۂ دل ، سرمایۂ جاں
آلِ پیمبرؐ ، اولادِ حیدر
اعظؔم یہی ہے ایمانِ کامل
دل میں بسالو حُبِّ پیمبرؐ
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی