آمادہ شر پھر ہیں ستم گر مرے آقاؐ

آمادہ شر پھر ہیں ستم گر مرے آقاؐ

اُمّت کی خبر لے مرے سرورؐ، مرے آقاؐ


افغانیوں پر کوہِ الم ٹوٹ پڑا ہے

خو نر یز ہیں کہسار کے منظر مرے آقاؐ


مسموم و شرربار ہیں کابل کی فضائیں

مغموم ہیں شمشاد و صنوبر مرے آقاؐ


ہے سطوتِ محمودؒ مسلماں سے گلہ مند

غزنی کا ہر اک ذرّہ ہے مضطر مرے آقاؐ


پھر بھیک ہمیں قوّتِ حیدر کی عطا ہو

اک حشر بپا ہے پس خیبر مرے آقاؐ


فریاد کناں ہیں در و دیوارِ فلسطین

ہیں نوحہ بلب مسجد و منبر مرے آقاؐ


نبیوں کی زمیں منتظرِ حرفِ اذاں ہے

پہنچے کوئی اسلام کا لشکر مرے آقاؐ


سازش سے یُہود اور نصارایٰ کی جہاں میں

توحید کے فرزند ہیں بے گھر مرے آقاؐ


صیہونیت افرنگ کے بل پر ہے تنومند

غازی ترے دم سے ہیں تونگر مرے آقاؐ


ہر دَورِ پُر آشوب میں اک تیری دُعا نے

بدلا ہے مسلماں کا مقّدر مرے آقاؐ


توفیق ِ جہاد اُمّتِ آخر کو بھی مل جائے

طاغوت صف آرا ہے جو کھُل کر مرے آقاؐ


پھر غلبہ اسلام ہو آفاق میں ہر سُو

تائب کو یہ حسرت ہے برابر مرے آقا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

فضا میں اُن کے ہونٹوں کی صدا ہے

نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں

تیرے غم میں جو نہ گزرے بیکار زندگی ہے

میری سانسوں میں تم دل کی دھڑکن میں تم

اللہ دے حبیب دی محفل سجا لواں

ہوں دامن میں انبار بھی گر عمل کے

یا رسول اللہ انظر حالنا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

بکھری پڑی ہے طیبہ میں خوشبو گلی گلی

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا