اصل ان کی نور ذات ہے، صورت بشر کی ہے

اصل ان کی نور ذات ہے، صورت بشر کی ہے

تصویر آئینے میں بھی آئینہ گر کی ہے


وہ ہیں علیم، ان کو ہر اک شئے کا علم ہے

وہ ہیں خیبر، ان کو خبر ہر خبر کی ہے


ان سے سکون قلب و نظر مانگتا ہوں میں

ان کے ہی ہاتھ لاج مری چشم تر کی ہے


مجھ کو شہ امم سے توقع ہے خیر کی

امید ان کی ذات سے ہی دفع شر کی ہے


سمجھا خرد نے اور انہیں، عشق نے کچھ اور

بات اپنے اپنے ذوق کی، اپنی نظر کی ہے


صل علی دیار مدینہ کے رات دن

صورت کچھ اور جلوہ شام و سحر کی ہے


اس نعت میں ہے حضرت احمد رضا کا رنگ

یعنی زمین شعر اسی دیدہ ور کی ہے

شاعر کا نام :- مظہر الدین مظہر

دیگر کلام

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

کِتنی گُستاخ ہے نگاہِ خیَال

مَیں کہاں، وہ سرزمینِ شاہِؐ بحرو بر کہاں

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

ساری دنیا سُکھ نال سُتی میں اٹھ اٹھ کے جاگاں

روح سکون پائے گی قلب بھی ہوگا مطمئن

مظہرِ شانِ حق ہے جمالِ نبیؐ

رویّہ بد زبانی کا وہ اپنانے نہیں دیتے

شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ

کیا عزت و شہرت ہےکیاعیش و مسرت ہے