چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

احد اور احمدؐ کی ملاقات ہوئی آج کی رات


گفتگو ذات سے بالذات ہوئی آج کی رات

مختصر یہ کہ بڑی بات ہوئی آج کی رات


راکِب وقت نے کھینچی ہے زمامِ گردِش

حیرت ِ ارض و سماوات ہوئی آج کی رات


یُوں تو الطاف تھے سرکارؐ پہ روزِ کُن سے

وا مگر چشمِ عنایات ہوئی آج کی رات


رِفعتِ عبد کو جبریلِ امیں ؑ نے دیکھا

کیوں نہ ہو ‘ رافعِ درجات ہوئی آج کی رات


پردہء میم کے اندر ہے مقامِ محمود

کاشِفِ سرِّ حجابات ہوئی آج کی رات


قابَ قوسَین سے دو گام ورا جا نِکلا

عقل والوں کو بڑی مات ہوئی آج کی رات


!جُملہ ایّام سے تابِندہ ہے میلاد کا دن

جُملہ راتوں سے حسین رات ہوئی آج کی رات


!آج کی رات ہے عبادات کا ثمرہ واصفؔ

حمد و تسبیح و مناجات ہُوئی آج کی رات

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

دیگر کلام

رہواں کردا سدا رو رو دُعاؤاں اے میرے مولا

دن رات جدے مکھڑے توں لیندے نیں اجالا

بِذِکْرِ الْمُصْطَفٰے ہَادِی الزَّمَان

رنگ ہستی نکھر نکھر جائے

توں میری جند جان نبی جی

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

مصطفیؐ و مجتبیٰؐ میرے حضورؐ

ہے کائنات کے خالق کا نام وردِ زباں

زُلفِ سرکار سے جب چہرہ نکلتا ہوگا