چادر سی جو نور کی تنی ہے

چادر سی جو نور کی تنی ہے

ماہِ اخضر کی چاندنی ہے


میں بابِ کرم تک آگیا ہوں

بگڑی ہوئی بات یوں بنی ہے


دامن ہے تہی تو غم نہیں ہے

الطاف سے ان کے دل غنی ہے


خاموش کھڑا ہوں ان کے در پر

کب میری کہانی گفتنی ہے


پرساں نہیں کوئی بھی جہاں میں

آقاؐ مرا حال دیدنی ہے


رکھ دیجیے اس پہ دستِ شفقت

دل میں مرے کرب کی انی ہے


اک تابشِ التفات ادھر بھی

گھر میں مرے تیرگی گھنی ہے


درکار ہے آپؐ کا سہارا

سر پنجہء زیست آہنی ہے


رحمت کی پناہ مجھ کو دیجیے

ہر سمت سے تیرافگنی ہے


محتاجِ نگاہِ خاص آقاؐ

تائب کی دریدہ دامنی ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

مدنی کرم کماوَن آگئے

خدا نے دل دیا دل کو خدا نبیؐ نے دیا

نُور قدیم دی شان مُحمدؐ

کوئی ثانی نہیں، محبوب ؐ بنایا ایسا

دونوں جہاں میں یا نبیؐ کوئی نہیں ترا جواب

اللہ اللہ نبی کا گھرانہ، یہ گھرانہ وری الوری ہے

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

جذبۂ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے

ہر آیتی بہ شرح و بیانِ مُحمَّدؐ است

جگت گرُو مہاراج ہمارے ، صلّی اللہ علیہ وسلم