چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

دل کا قبلہ کر لیا ہے ان کے روضے کی طرف


حشر میں اذنِ شفاعت مصطفیٰ کو ہے ملا

تک رہی ہیں اُمتیں آقا کے چہرے کی طرف


ناز برداری خدا کرتا ہے یوں محبوب کی

سمتِ قبلہ پھیر دی اقصیٰ سے کعبے کی طرف


ہم کو کافی ہے سہارا احمدِ مختار کا

ہات پھیلائیں بھلا کیوں ایسے ویسے کی طرف


کب سے نظمی آپ کے در پڑا ہے اے حضور

اک نظر رحمت کی ہو اس اندھے شیشے کی طرف

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

حشر میں مجھ کو بس اتنا آسرا درکار ہے

اعمال کے دَامن میں اپنے

سوہنیا ، سیدا ، عربیا ، ڈھولیا بخش دے جے کوئی بول میں بولیا

پاک محمد کرم کما مینوں سدلَے روضے تے

چھڈ دے طبیبا دارو تینوں کی پتا اے

حاصلِ زیست ہے اُس نُور شمائل کی تلاش

مدینے دے راہی میں تیرے توں صدقے

محبوبِ ربِّ اکبر تشریف لارہے ہیں

سنہری جالی کی ضو فشانی

دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے