دمبدم تیری ثنا ہے یہ بھی

دمبدم تیری ثنا ہے یہ بھی

دل دھڑکنے کی صدا ہے یہ بھی


چاند، اسرٰی کی سرِ راہ دلیل

تیرا نقشِ کفِ پا ہے یہ بھی


نگہِ لُطف سے دشمن، ہوئے دوست

شانِ رحمت کی ادا ہے یہ بھی


اچّھے اُس کے ہیں، بُرے میرے ہیں

کملی والے نے کہا ہے یہ بھی


شافعِؐ حشر وہ ہیں، مَیں عاصی

وہ بھی برحق ہے، بجا ہے یہ بھی


رات دن گُنبدِ خضریٰ دیکھوں

رات دن ایک دُعا ہے یہ بھی


نعت کو حاصلِ ایماں سمجھا

ذکرِ محبوبِؐ خدا ہے یہ بھی


کعبہ جاں ہے درِ ختمِ رُسُل

سَر جھُکا لوں تو روا ہے یہ بھی


کون رو کے دلِ مضطر کو نصیرؔ

اب تو ہاتھوں سے چلا ہے یہ بھی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

کملی والا نور اجالا لے کے رحمت دا دو شالہ

کعبہ مرے دل میں ہے مدینہ ہے نظر میں

میرا محبوب دو جگ توں نرالا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

گنبدِ خضریٰ ہے اے دل آج تیرے روبرو

کِس نے پایا ہے جہاں کی رہنمائی کا شرف

جس کو نسبت ہوئی آپ کے نام سے

خردِ ارض و سما سیّد مکی مدنی ؐ

طیبہ کی مشک بار فضا کے اثر میں ہے

درود آپ پہ آقا کہ صورتِ زیبا