در خیر الوری ہے اور میں ہوں

در خیر الوری ہے اور میں ہوں

کرم کی انتہا ہے اور میں ہوں


نظر کے سامنے ہے سبز گنبد

عطاؤں پر عطا ہے اور میں ہوں


در محبوب داور پر جھکا ہوں

عطائے کبریا ہے اور میں ہوں


مواجہ پر لگی ہیں میری نظریں

تصور آپ کا ہے اور میں ہوں


درودوں کی صدائیں آ رہی ہیں

سلاموں کی صدا ہے اور میں ہوں


ہیں کیف آور مدینے کی ہوائیں

سکوں پرور فضا ہے اور میں ہوں


مقدر اوج پر ہے آج کتنا

نبی کا نقش پا ہے اور میں ہوں


جہاں دیتے ہیں قدسی بھی سلامی

وہ شہر مصطفیٰ ہے اور میں ہوں


مجھے اب مشکلوں کا غم نہیں ہے

مرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں


نیازی اور کیا مانگوں خدا سے

مرا حاجت روا ہے اور میں ہوں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

خیر وی خیر الوریٰ وی آپ نیں

پر حقیقت حضور کا چہرہ

حضوری جو کہ خوابوں کی بدولت ساتھ رہتی ہے

دیکھ اے دل! یہ کہیں مُژدہ کوئی لائی نہ ہو

ہو گیا حاجِیوں کا شُروع اب شُمار

کام بگڑے بنا نہیں کرتے

اے مدینے کے تاجدار سلام

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم

اے شاہؐ ِ دیں ! نجات کا عنواں ہے تیری یاد

مجھے اپنے در پہ بلا لیا وہ حسین روضہ دکھا دیا