کام بگڑے بنا نہیں کرتے

کام بگڑے بنا نہیں کرتے

آپ جب تک دعا نہیں کرتے


خود خدا بھی ہے نعت گو ان کا

بے سبب ہم ثنا نہیں کرتے


رب ملے کب بجز حبیبِؐ خدا

عمر گزری خدا خدا کرتے


تکتے رہتے ہیں گنبدِ خضریٰ

فرض ہم یہ ، قضا نہیں کرتے


جان و دل کرتے ہیں نثار ان پر

ان کے دیوانے کیا نہیں کرتے


شکوہ محبوب کا کسی سے بھی

ان کے عاشق سنا نہیں کرتے


انؐ کو جانے نہ اور ہم سے ملے

ہم نہیں ایسوں سے ملا کرتے


واپسی ہے ظہوریؔ مجبوری

وہ تو در سے جدا نہیں کرتے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

روحِ حیات عشقِ حبیبِ خدا میں ہے

یاد وچہ روندیاں نیں اکھیاں نمانیاں

جلتا ہوں اُس پہاڑ پہ لوبان کی طرح

محبتِ رسول میرے من کی میت ہو گئی

مسلماں نامِ رب لے کر قدم مشکل میں رکھتے ہیں

ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے

پڑھ کر درودِ پاک ، ثنا کی طرف گیا

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

اب کرم یامصطَفیٰ فرمائیے

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے