دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

ہمیشہ یونہی کرے گی اس کے عروج کا اعتراف خوشبو


میں جب بھی یادوں میں ان کے چہرے کے خال و خد کو پکارتا ہوں

تو معبدِ قلب و جاں میں کرتی ہے دیر تک اعتکاف خوشبو


یہ کس کی فرقت نے ڈال دی ہے سیاہ پوشی کی تجھ کو عادت

حرم میں کعبہ سے پوچھتی تھی پکڑ کے اس کا غلاف خوشبو


عبیر و عنبر گلاب و سوسن پناہ کا ہاتھ کھینچ لیں گے

کرے گی جس دن دیارِ سرور کی خلد سے انحراف خوشبو


ملوں گی تجھ کو دیارِ رشکِ ارم کے ہر ایک بام و در پر

ہر ایک حاجی کو دے رہی تھی پتا درونِ مطاف خوشبو


فضائے طیبہ سے کر رہے ہیں کشید مجھ کو یہ پھول سارے

چمن چمن سب کیاریوں میں یہ کر گئی انکشاف خوشبو


اگرچہ خوشبو ہے ایک احساسِ خوشگوار و لطیف لیکن

حرم کے صحنوں میں رقص کرتی دکھائی دیتی ہے صاف خوشبو


وہ اس کو آباد کر رہا ہے حروفِ مدحت کے مستقر میں

نہیں ہے ممکن کرے گی اشفاقؔ سے کبھی اختلاف خوشبو

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

تیرے سخیا وسدے بوہے توں خالی ٹر جاواں تے گل کجھ نئیں

سعادت اب مدینے کی عطا ہو

نظارے ہیں گو لاکھوں جہاں بھر کے نظر میں

ملتا ہے بحرِ درد سے دیدہ نم کا سلسلہ

وہ حسن تجھے رب نے بخشا ہر حُسن ترے قربان شہاؐ

بیچ منجدھار میں ہے میرا سفینہ یا رب

خُدائے پاک کا قوسین کب ٹھکانہ ہے

ہے کس قدر یہ معطر فضا مدینے میں

سب سے بہتر ہے نام و نسب آپؐ کا

پھر مدینے کی گلیوں میں اے کردگار