ہے زمین پر جنّت ، آفریں مدینے کے

ہے زمین پر جنّت ، آفریں مدینے کے

خوش نصیب ہیں طاہرؔ سب مکیں مدینے کے


دل سے گر پڑھا جائے وہ سلام سنتے ہیں

بام و در بھی ہوتے ہیں سامعیں مدینے کے


نعت کے حوالے سے ، نسبت درودی سے

صبح و شام رہتے ہیں ہم قریں مدینے کے


بار بار آنے کی آرزو رہے دل میں

ایک بار آئیں جو زائریں مدینے کے


ان کی حب کی نسبت سے ہم اِسی کے باسی ہیں

کیا ہوا بظاہر گر ہم نہیں مدینے کے


ان کی سمت رکھتے ہیں در کھلا خیالوں کا

دیکھتے مناظر ہیں ہم یہیں مدینے کے


روم سے ، حبش سے ہوں ، عجم سے ہوں کہ فارس سے

جو ہوئے ہیں آقاؐ کے ہیں نگیں مدینے کے


دھڑکنیں ہیں بڑھ جاتیں بے خودی ہے چھا جاتی

تذکرے سنائی دیں جب کہیں مدینے کے


بڑھ کے ساری دنیا سے لگتے ہیں بھلے طاہرؔ

ہم سفر مدینے کے ، ہم نشیں مدینے کے

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

طیبہ دے شہنشہ دا دربار ہے شہانہ

تیرے در سے یا نبی خالی گیا کوئی نہیں

لب پہ آقا کی گفتگو آئے

شافعِ محشر کا واصف جو یہاں ہوجائے گا

سرکارؐ! اساں مسیکناں دی کیوں دُور مُصیبت نہیں ہوندی

یا رب ترے محبوب کا جلوا نظر آئے

سُنی تھیں جتنی بہشتِ بریں کی تعریفیں

جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

چن مُکھ عربی دلبر دا ویکھ جہنوں سینہ ٹھر دا

بگڑی ہوئی بنتی ہے ہر بات مدینے میں