ہر آن اک تپش غمِ خیرالبشرؐ کی ہے
اب تو یہ آگ دل کے لیے عُمر بھر کی ہے
عزّت اُسی کی، شان اُسی کے سفر کی ہے
جس دل کو آرزو درِ خیر البشرؐ کی ہے
جس رہگزر سے گزرے ہیں محبوبِؐ کردگار
اکسیر مجھ کو خاک اُسی رہگزر کی ہے
پہنچوں مدینہ، دل کی یہ ہر دَم ہے آرزو
دیکھوں نبیؐ کا شہر، یہ حسرت نظر کی ہے
سچ ہے کہ فخر ہے مجھے خود اپنی ذات پر
کیوں کر نہ ہو کہ خاک مِری اُن کے دَر کی ہے
یا رب! نصیب دولتِ عشقِ رسولؐ ہو
مجھ کو ہَوس نہ زر کی، نہ لعل و گُہر کی ہے
لوگوں نے دے دیا ہے اُسے کہکشاں کا نام
جو دُھول آسماں پہ تری رہ گزر کی ہے
ماہ و نُجوم کو ترے جلووں کی ہے تلاش
جو اُن کی جستجو ہے وہی بحرو بر کی ہے
کہتا ہے، سب ضیائے نبیؐ مَیں سمیٹ لُوں
کتنی بڑی یہ بات دلِ مختصر کی ہے
پہنچے وہ بارگاہِ رسالتؐ مآب میں
جس دل کو احتیاج کسی چارہ گر کی ہے
اُس آستانِ پاک پہ سجدے کئے ہزار
اُنؐ کے حضور خَم ہو، سعادت یہ سَر کی ہے
کیوں کر کہوں نصیرؔ زمانے سے حالِ دل
گھر میں رہے جو بات وہی بات گھر کی ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست