ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی

ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی

ہے گنبد خضراء کی جھلک اور طرح کی


ہر آن خیالوں میں ہے اس شہر کی ٹھنڈک

چلتی ہے جہاں بادِ خنک ، اور طرح کی


جھونکا کوئی گزرا ہے مدینے کی ہوا کا

اطراف میں ہے آج مہک، اور طرح کی


جب لوٹ کے آتے ہیں مدینے کے مسافر

ہوتی ہے جبینوں پہ چمک، اور طرح کی


اشکوں کی جو برسات ہوئی یادِ نبیؐ میں

پھیلی افقِ جاں پہ دھنک، اور طرح کی


یہ سرورِ عالم کی غلامی کی عطا ہے

رہتی ہے جو لہجے میں کھنک، اور طرح کی


پلکوں پہ جو روشن ہے مدینے کے سفر میں

یہ شمع ہے اے بامِ فلک اور طرح کی


کرتا ہوں میں جب مدحِ محمدؐ کا ارادہ

ملتی ہے مدینے سے کمک اور طرح کی


سرور نے سنا ہے یہی شاہانِ سخن سے

ہے نعت کے لکھنے میں جھجک اور طرح کی

شاعر کا نام :- سرور حسین نقشبندی

دیگر کلام

کاش! دشتِ طیبہ میں ،میں بھٹک کے مرجاتا

معراجِ نبیؐ آج ہے افلاک سجے ہیں

روضۂ سرکارؐ رشکِ مطلعِ فاران ہے

جانِ جہاں کے دم سے ہی دم ہے رگِ حیات میں

دُکھاں کھوہ لیا اے چین تے قرار میرے کولوں

تری رحمت پہ ہے اپنا گزارا یا رسول اللّٰہ

تَرانے مصطَفٰے کے جھوم کر پڑھتا ہُوا نکلے

مدینے جا کے آقا سے ، مرا یہ ماجرا کہنا

اے دلرباؐ اے دلنشیںؐ

مہکے تمہاری یاد سے یوں قریۂ وجود