ہر طرف جب ترے انوار جھلکتے جائیں

ہر طرف جب ترے انوار جھلکتے جائیں

قافلے کیُوں رہِ ہستی سے بھٹکتے جائیں


زائرو کھلتے رہیں لب پہ درُودوں کے چمن

راستے ذکرِ مُحمّؐد سے مہکتے جائیں


دیدہ و دل پہ بڑی گرد ہے اے ابرِ کرم

چند چھینٹے کہ یہ آئینے چمکتے جائیں


ہم مسلسل پئیں، وہ ہم کو لگاتار پلائیں

مئے کوثر سے بھرے جام چھلکتے جائیں


جِس بھی صحرا میں ہو اُس جانِ بہاراں کا گُزر

ذرّے چھُو چھُو کے قدم اُس کے چٹکتے جائیں


اِک توجّہ کہ مِرے دِل میں ہوں جذبے روشن

بُجھ گئے ہیں جو ستارے وہ دمکتے جائیں


اے شبِ ہجر تُو ہے کتنے زمانوں پہ محیط

کب تک آنسو مِری پلکوں سے چھلکتے جائیں


حشر میں نامۂ اعمال ہو جب پیشِ خُدا

ہم ترے پہلُوئے رحمت میں سرکتے جائیں


یُوں چلیں مدح سَرا سُوئے مدینہ عاصیؔ

جیسے طائر طرفِ باغ چہکتے جائیں

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

تم ہو شہِ دوسرا شاہِ عرب شاہِ دیں

اے کاش! شبِ تنہائی میں ، فُرقت کا اَلَم تڑپاتا رہے

محمد کی محفل سجاتے رہیں گے

توسے لگا کر پیت نبی جی

اے مرکز و منبعِ جود و کرمؐ اے میرؐ اُممؐ

مدینہ دیکھ کر دل کو بڑی تسکین ہووے ہے

عشق تو ہے تیرا لیکن بہتیرا چاہوں

شہنشاہوں کو تیرے گھر کی دربانی نہیں ملتی

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں