حضور سب کے پیشوا رسولِ کردگار ہیں
حضور تاج بخش ہیں حضور تاجدار ہیں
حضور وجہِ رنگ و بو حضور باعثِ نمو
حضور ہی چمن بھی ہیں حضور ہی بہار ہیں
حضور ہی کے فیض سے بہار کیف ریز ہے
ہوائیں عطر بیز ہیں فضائیں مشکبار ہیں
مئے حجاز میں کچھ ایسی کیفیت ہے ساقیا
کہ جس سے ہوشیار مست ، مست ہوشیار ہیں
ہمیں زمیں سے کیا غرض ہے آسماں سے کیا غرض
غمِ جہاں سے کیا غرض حضور غمگسار ہیں
حضور یاد کیجئے ہمیں مُراد دیجئے
حضور شاد کیجئے کہ غم کے ہم شکار ہیں
حضور کیجئے رحمتیں مٹائیے یہ زحمتیں
حضور کے ہیں ہم غلام گو گناہ گار ہیں
شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی
کتاب کا نام :- نعت حضور