حضور ؐطیبہ کے رات اور دن مجھے بہت یاد آرہے ہیں

حضور ؐطیبہ کے رات اور دن مجھے بہت یاد آرہے ہیں

کوئی مرے کان میں یہ کہہ دے حضورؐ تجھ کو بلا رہے ہیں


وہی مری جان ، جان ِجاں ہیں جو وجہِ تخلیقِ دو جہاں ہیں

نمیدہ پلکیں بچھائے رکھیے حضورؐ تشریف لا رہے ہیں


کہاں زبان و کلام میرا، کہاں ثنائے حضورِ والاؐ

کرم ہے اُنؐ کا کہ مجھ سے عاصی نبی ؐکی نعتیں سنا رہے ہیں


عطائے ربِ کریم ہیں وہؐ، کریم بے حد کریم ہیں وہؐ

خدا نے کوثر عطا کیا ہے بلا بلا کر پلا رہے ہیں


درِ نبیؐ پر اگر ہو جانا تو اپنی آواز پست رکھنا

قسم خدا کی حروفِ قرآں ادب نبیؐ کا سکھا رہے ہیں


مرا بھی ایسا نصیب ہوتا کہ میں بھی اُنؐ کے قریب ہوتا

یہ صدیوں کے فاصلے نہ ہوتے یہ فاصلے بھی رُلا رہے ہیں


جہان سارا اُمڈ رہا ہے ہمارا دل بھی مچل رہا ہے

سنا ہے قاسمؐ ، کریمؐ ، داتاؐ کرم کی دولت لٹا رہے ہیں


دیا ہے رَبّ نے حبیبؐ اپنا بہت بڑا ہے نصیب اپنا

عظیم نعمت عطا ہوئی ہے تبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں


کبھی تو اشفاقؔ ہو گا آخر ہمیں وہ جلوہ کہ جس کی خاطر

کروڑوں پلکیں بچھی ہوئی ہیں کروڑوں پلکیں بچھا رہے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

میں اپنے ہار ہنجواں دے پروتے یا رسول اللہ

نظارا اے دمِ آخر بتا کتنا حسیں ہوگا

آیا عرب دا آج سردار اے

بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

راہِ نبیؐ میں ذوقِ وفا میرے ساتھ ہے

ادب یہ ہے کہ جہاں اُن کا نام آجائے

جو لوگ بن کے ادب دانِ مصطفیٰؐ اُٹّھے

میرا محمد رسول وی اے اوہ مرسلاں دا امام وی اے

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

آنکھ میں اشک شبِ ہجر کی تنہائی ہے