ہجر کے ماروں کو کب کوئی دوا اچھی لگی

ہجر کے ماروں کو کب کوئی دوا اچھی لگی

ہاں مگر شہر محبت کی ہوا اچھی لگی


ہیں جہاں کی رونقیں رعنائیاں اپنی جگہ

عاشقوں کو تو مدینے کی فضا اچھی لگی


چاند تارے بھی حسیں ہیں خوب ہے خورشید بھی

پر نظر کو سبز گنبد کی ضیا اچھی لگی


یوں تو دینے والوں نے دی ہیں دعائیں ان گنت

ان دعاؤں میں مدینے کی دعا اچھی لگی


مانگتے ہیں جو محمد مصطفیٰ کے نام پر

ایسے منگتوں کی خدا کو بھی ادا اچھی لگی


قبلہ رخ بھی پھیر ڈالا چاند بھی دو کر دیا

میرے رب کو کملی والے کی رضا اچھی لگی


ان کے منہ سے جو بھی نکلی خالق کونین کو

رب "ھب لی امتی" کی وہ صدا اچھی لگی


ان کے در کی حاضری کا لے کے آتی ہے پیام

کیا کہوں مجھ کو تو کتنی اے صبا اچھی لگی


اے نیازی عاشقان مصطفیٰ کو دم بدم

گر لگی اچھی تو نعت مصطفی اچھی لگی

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

چار سو بکھری ہوئی ہے نور و نکہت کی چمک

مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا

زندگی یادِ مدینہ میں گزاری ساری

کہوں کیاحال زاہد گلشنِ طیبہ کی نزہت کا

رسول میرے مِرے پیمبر درود تم پر سلام تم پر

دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

درِ حضورؐ سے در کوئی بھی بلند نہیں

ربیعِ اول میں موسموں کے نصاب اترے

گُلوں کے اشارے دُعا کر رہے ہیں

تم ہو حسرت نکالنے والے