دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

روشن ہیں تیرے نور سے سورج بھی قمر بھی


دی طائروں نے تیری رسالت کی گواہی

بول اُٹھے تیرے حکم سے پتھر بھی شجر بھی


جس وقت چلے تم ہوئے خوشبو سے معطر

کوچے بھی مکانات بھی دیوار بھی در بھی


محبوب دو عالم ہے کدھر دیکھئے دیکھے

مشتاق نگاہوں کے اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی


دے ڈالیں گے جاں شربتِ دیدار کے بدلے

مرنے پہ جو ملتا ہے تو ہم جائیں گے مر بھی


اک میں ہی نہیں سب ہیں تیرے چاہنے والے

اللہ بھی حوریں بھی فرشتے بھی بشر بھی


ڈیوڑھی پہ بھکاری ہیں کھڑے آس لگائے

یا شاہِ دو عالم نگہِ لطف اِدھر بھی

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

اغیار کا احسان اٹھایا نہیں جاتا

مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری

کیف و لطف و سرور کی باتیں

لج پال نبی کملی والا من ٹھار وی اے غم خوار وی اے

توسے لگا کر پیت نبی جی

یا رب بسا کے بیٹھا ہوں دنیائے آرزو

پڑھو درود بہارو حضور آئے نے

دو عالم گونجتے ہیں نعرۂ اَللّٰہُ اَکْبَر سے

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

نسیمِ صبح گفتار ابوبکر