حوصلہ دے فکر کو اور بارشِ فیضان کر

حوصلہ دے فکر کو اور بارشِ فیضان کر

ہے ثناء تیری بہت مشکل اِسے آسان کر


رفتہ رفتہ کھول مجھ پر راز ہائے جسم و جاں

دھیرے دھیرے مجھ پہ ظاہر تو مری پہچان کر


زیست کے تپتے ہوئے صحرا میں ہوں اس سے نکال

میرے سر پر بیکراں رحمت کی چادر تان کر


کفر آلود فضاء میں سانس لینا ہے محال

پھر سے اس گم کردہ رِہ کو صاحب ایمان کر


ختم ہوجائے بساطِ خاک کا سب شور و شر

بے سکونی کو عطاء پھر حسنِ اطمینان کر


خیمہء شب سے یہی آواز آتی ہے صبیحؔ

حمد لکھ اور اس طرح بخشش کا کچھ سامان کر

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

تو میری تقدیر تو میرا ایمان اے میرے سلطان

نہ ایمن کی حسیں وادی نہ حسنِ طور سینا ہے

نبی آئے جگ تے ہزاراں کملی والیا

خود خدا کا پیار ہم کو مِل گیا

نہ مایوس ہو میرے دُکھ دَرد والے

ہر رفعتِ دُنیا مری سرکارؐ پہ واری

جس کو کرنی ہو متاعِ روزِمحشر مجتمع

تاجِ توصیفِ نبی بر سرِ ایمان چڑھا !

سلام اُس تے جیہڑا خالق دا بندہ بن کے آیا اے

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے