حوصلہ دے فکر کو اور بارشِ فیضان کر
ہے ثناء تیری بہت مشکل اِسے آسان کر
رفتہ رفتہ کھول مجھ پر راز ہائے جسم و جاں
دھیرے دھیرے مجھ پہ ظاہر تو مری پہچان کر
زیست کے تپتے ہوئے صحرا میں ہوں اس سے نکال
میرے سر پر بیکراں رحمت کی چادر تان کر
کفر آلود فضاء میں سانس لینا ہے محال
پھر سے اس گم کردہ رِہ کو صاحب ایمان کر
ختم ہوجائے بساطِ خاک کا سب شور و شر
بے سکونی کو عطاء پھر حسنِ اطمینان کر
خیمہء شب سے یہی آواز آتی ہے صبیحؔ
حمد لکھ اور اس طرح بخشش کا کچھ سامان کر
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی