حکمِ خدا بھی دل کی صدا بھی درود ہے

حکمِ خدا بھی دل کی صدا بھی درود ہے

روحانیت کی اصل غذا بھی درود ہے


آقاؐ کی چاہتوں کا ہے زینہ درودِ پاک

اور چاہتِ نبیؐ کا صلہ بھی درود ہے


مانا کہ وردِ صلے علیٰ ہے درود پر

ہر نسبتِ نبیؐ کی حیا بھی درود ہے


ہاں ہاں اندھیری قبر کی ہے روشنی درود

محشر میں عافیت کی ردا بھی درود ہے


پڑھنا دعا میں اول و آخر درودِ پاک

حاجت روا خدا کی رضا بھی درود ہے


ورثے میں دے رہا ہوں فقط دولتِ درود

اپنے بڑوں سے مجھ کو ملا بھی درود ہے


نورِ شعور بھی ہے یہی وردِ جانفزا

بنجر زمینِ دل کی گھٹا بھی درود ہے


قربِ رسولِؐ پاک کا جو بھی ہے راستہ

اسکا شکیلؔ پہلا سِرا بھی درود ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

ہے اُن کی زمیں اور، فلک اور، سماں اور

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا

حبِ نبیؐ اگر ترے سینے میں نہیں ہے

جانِ رحمت کے انوکھے وہ نیارے گیسو

میں بھی گداگر کہلاتا ہوں شاہِ زمن کی چوکھٹ کا

جیون دا مزہ تاں ایں اک ایسی گھڑی ہووے

خواہشِ دید! کبھی حیطۂ ادراک میں آ