ہم درِ یار پہ سر اپنا جھکا لیتے ہیں

ہم درِ یار پہ سر اپنا جھکا لیتے ہیں

سچ بتانا ارے دُنیا تیرا کیا لیتے ہیں


اُس کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں زمانے والے

جس کو محبوب خدا اپنا بنا لیتے ہیں


وقت کی قید نہیں ہیں یہ کرم کی باتیں

جب بھی سرکار کی مرضی ہو بلا لیتے ہیں


غم کے ماروں کا طبیبو نہ کرو کوئی علاج

ہم غم عشق نبی میں بھی مزہ لیتے ہیں


پتھرو تم تو ہو پتھر مگر آقا میرے

تم سے گر چاہیں تو کلمہ بھی پڑھا لیتے ہیں


جب نہیں ملتی کہیں سے بھی سکوں کی دولت

تیری محفل تیرے دیوانے سجا لیتے ہیں


یہ بھی سرکار کی رحمت ہے کرم ہے اُن کا

ہم جہاں جائیں وہاں رنگ جما لیتے ہیں


گنبد خضری خدا تجھ کو سلامت رکھے

دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں


جب سے دیکھا ہے نیازی وہ ریاض الجنتہ

ہم تو گھر بیٹھے بھی جنت کی ہوا لیتے ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

زندگی محوِ ثنائے مصطفؐےٰ ہونے لگی

امّت کا ربط سیّدِ خیر الوریٰ سے ہے

میری محبتوں کا مُجھے بھی صلہ دیا

تڑپدے رات دن رہنا تے اشکاں دی روانی ایں

گرچہ از روزِ ازل مشربِ رنداں دارم

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

پر نور نہ ایماں کی ہو تصویر تو کہیے

سر کو جھکائے ہے فلک ان کے سلام کے لیے

سیّد کونین سلطانِ جہاں

رنگِ فطرت آپؐ کے فیضان سے نِکھرا حضورؐ