اس نظر کے مقدر کی کیا بات ہے جس کو تیری نظر کا سہارا ملے

اس نظر کے مقدر کی کیا بات ہے جس کو تیری نظر کا سہارا ملے

دو جہاں اس کی نظروں میں کچھ بھی نہیں تیرے جلووں کا جس کو سہارا ملے


ذرے ذرے پہ آقا عنایت تیری فرش کیا عرش پر ہے حکومت تیری

چاند آتا ہے دینے شہادت تیری تیری انگلی کا جب بھی اشارہ ملے


تیری تصویروں کے نگینے میں ہو خاتمہ زندگی کا مدینے میں ہو

دو جہاں کی اسے بادشاہی ملے جس کو آقا تمھارا دوارا ملے


کچھ نہیں غم اگر غم کا طوفان ہے میرا غمخوار مدنی پر ایمان ہے

نا خدا جس کا طیبہ کا سلطان ہے اس کی کشتی کو کیوں نہ کنارا ملے


بحر عصیاں کو میرے بھی ساحل ملے اس مسافر کو بھی کوئی منزل ملے

بات بگڑی ہوئی میری بن جائیگی حشر میں ساتھ آقا تمھارا ملے


عاصیو تھام لو دامن مصطفے کہہ رہا ہے خدائی سے خود ہی خدا

اس پہ ہوتی ہے معراج بخشش فدا جس کو معراج کا وہ دولارہ ملے


اب نیازی کو بھی حسن کی دید ہو اس گدائے محبت کی بھی عید ہو

پوری یہ آخر میری امید ہو میری قسمت کا روشن ستارا ملے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

خمیر حضرت آدم ابھی نہ اٹھا تھا

ہے کلامِ پاک میں مدحت رسول اللہ کی

نہ میں باغی ہوں نہ منکر نہ نکوکاروں میں

روشنیِ انسان تھی

نعت سنتا رہوں نعت کہتا رہوں

ہر اک موجود و لا موجود شے تعظیم کرتی ہے

دیکھو مرا نصیب بھی کس اوج پر گیا

جن کو نبیؐ کی ذات کا عرفان مل گیا

آپ کے جیسا خوش جمال کہاں

مرے حضور ؐ! سلام و درُود کے ہمراہ